کسی سبب کے تحت ہو تو ایسا شخص معذور ہے اور اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا قول ہے:’’پس اہل ایمان‘ اہل ایمان کو چھوڑتے ہوئے کافروں کودوست نہ بنائیں اور جو کوئی بھی ایسا کرے گا تو اس کا اللہ سے کوئی تعلق نہیں ہے سوائے اس کے کہ تم(یعنی اہل ایمان) ان کافروں(کی اذیت )سے بچنا چاہو کچھ بچنا۔‘‘ امام نسفی الحنفی رحمہ اللہ نے بھی یہی معنی بیان فرمایا ہے۔وہ لکھتے ہیں : ’’﴿اِلاَّ اَنْ تَتَّقُوْا مِنْھُمْ تُقَاۃً﴾ إلا أن تخافوا من جھتھم أمرا یجب اتقاؤہ أی إلا أن یکون للکافر علیک سلطان فتخافہ علی نفسک ومالک فحینئذ یجوز لک إظھار الموالاۃ وإبطان المعاداۃ۔‘‘ (21) ’’﴿اِلاَّ اَنْ تَتَّقُوْا مِنْھُمْ تُقَاۃً﴾کا معنی یہ ہے کہ تمہیں ان کی طرف سے کسی ایسے امر کا اندیشہ ہو کہ جس سے بچنا لازم ہویعنی یہ کہ کسی کافر کو تم پر غلبہ حاصل ہو اور تمہیں اس کافر سے اپنے جان اور مال کا خوف لاحق ہو تو اس وقت تمہارے لیے یہ جائز ہے کہ تم کافر سے دوستی کا اظہار کرو اور اس سے دشمنی کو چھپا لو۔‘‘ امام بیضاوی الشافعی رحمہ اللہ نے بھی یہی معنی بیان کیا ہے کہ خوف کے وقت دشمن کافر سے تعلقِ ولایت کا اظہار جائز ہے۔وہ لکھتے ہیں : ’’منع عن موالاتھم ظاھرا وباطنا فی الأوقات کلھا إلا وقت المخافۃ فإن إظھار الموالاۃ حینئذ جائز۔‘‘ (22) ’’اللہ تعالیٰ نے جمیع حالات میں کفار سے ظاہری یا باطنی تعلق ولایت قائم کرنے سے منع فرمایا ہے سوائے خوف کی حالت کے ‘ کیونکہ اس حالت میں کافر سے تعلق ولایت کا اظہار جائز ہے۔‘‘ یہ واضح رہے کہ﴿یٰٓاَیھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا﴾ میں اصلاً مراد اعتقادی منافقین ہیں جیسا کہ آیت کے سیاق و سباق سے واضح ہے اور اس آیت کا قطعی مفہوم یہی ہے‘لیکن تبعاً اس خطاب میں مسلمان بھی شامل ہیں ۔پس اگر اعتقادی منافق یہود و نصاریٰ سے دوستی رکھے تو اس کی تکفیر ہو گی جیسا کہ ہم بیان کر چکے ہیں اور اگر کوئی مسلمان حربی یہود و نصاریٰ سے دوستی رکھے تو پھر﴿وَمَنْ یَّتَوَلَّھُمْ مِنْکُمْ فَاِنَّہٗ مِنْھُمْ﴾(23)سے مراد تحذیر میں شدت(یعنی ڈرانے اور دھمکانے میں مبالغہ) ہے۔جیسا کہ قرآن کی آیت﴿فَمَنْ |