Maktaba Wahhabi

122 - 264
ہیں کہ جن کی وجہ سے مسلمان حکمران حربی یہود و نصاریٰ سے دوستی کرتے ہیں ۔پس اس صورت میں یہ حکمران فاسق و فاجر اور عملی منافق تو قرار پائیں گے لیکن ایسے کافر نہیں کہ جس کی وجہ سے وہ ملت اسلامیہ سے خارج ہوں ۔اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے مسلمانوں کو کفار سے اپنے بچاؤ کی تدبیر کے طور پر ان سے ظاہری دوستی کی اجازت دی ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿لَا یَتَّخِذِ الْمُؤْمِنُوْنَ الْکٰفِرِیْنَ اَوْلِیَائَ مِنْ دُوْنِ الْمُؤْمِنِیْنَ وَمَنْ یَّفْعَلُ ذٰلِکَ فَلَیْسَ مِنَ اللّٰہِ فِیْ شَیْئٍ اِلاَّ اَنْ تَتَّقُوْا مِنْھُمْ تُقَاۃً﴾ (19) ’’پس اہل ایمان‘ اہل ایمان کو چھوڑتے ہوئے کافروں کودوست نہ بنائیں اور جو کوئی بھی ایسا کرے گا تو اس کا اللہ سے کوئی تعلق نہیں ہے سوائے اس کے کہ تم(یعنی اہل ایمان) ان کافروں(کی اذیت )سے بچنا چاہو کچھ بچنا۔‘‘ حکمرانوں کے دلوں میں کافروں اور یہود و نصاریٰ کا جو خوف بیٹھا ہوا ہے اس کے بارے میں تویہ بحث ہو سکتی ہے کہ وہ ہونا چاہیے یا نہیں لیکن اس آیت مبارکہ کایہ استثناء بہرحال یہود و نصاریٰ سے دوستی کی بنیاد پر حکمرانوں کی تکفیر میں ایک مانع ضرور ہے۔اس آیت مبارکہ میں ’ تقاۃ‘سے مراد سلف صالحین نے تقیہ اور خوف دونوں لیے ہیں ۔امام شنقیطی مالکی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اگر دشمن کے خوف کے سبب سے کوئی مسلمان ان سے تعلق ولایت کا اظہار کرے تو یہ جائز ہے۔وہ﴿یٰٓاَیھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّخِذُوا الْیَھُوْدَ وَالنَّصَارٰی اَوْلِیَائَ بَعْضُھُمْ اَوْلِیَائُ بَعْضٍ وَمَنْ یَتَوَلَّھُمْ مِنْکُمْ فَاِنَّہٗ مِنْھُمْ﴾کے تحت لکھتے ہیں : ’’وبین فی مو ضع آخر: أن محل ذلک‘ فیما إذا لم تکن الموالاۃ بسبب خوف وتقیۃ وإن کانت بسبب ذلک فصاحبھا معذور وھو قولہ تعالی: ﴿لاَ یَتَّخِذِ الْمُؤْمِنُوْنَ الْکٰفِرِیْنَ اَوْلِیَآئَ مِنْ دُوْنِ الْمُؤْمِنِیْنَ وَمَنْ یَّفْعَلْ ذٰلِکَ فَلَیْسَ مِنَ اللّٰہِ فِیْ شَیْئٍ اِلاَّ اَنْ تَتَّقُوْا مِنْھُمْ تُقَاۃً﴾۔‘‘ (20) ’’ ایک اور جگہ اللہ تعالیٰ نے اس بات کو واضح کیا ہے کہ یہود و نصاریٰ سے یہ تعلقِ ولایت کسی خوف یا بچاؤ کے سبب سے نہ ہو‘ اور اگر یہود و نصاریٰ سے تعلقِ ولایت
Flag Counter