’’ جو تمہارے سامنے اپنے سلام(یعنی السلام علیکم کہے یا کلمہ شہادت)کو ظاہر کرے تو اس کو یہ نہ کہو: تم مومن نہیں ہو‘‘۔ خلاصہ کلام یہ ہے کہ یہ آیت مبارکہ ان مسلمانوں کی تکفیر کے بارے میں صریح ہے جو حربی یہود و نصاریٰ سے دوستی رکھتے ہیں اور وہ مسلمان عقیدے کے منافق بھی ہوں ۔ اگر کوئی مسلمان حکمران حربی یہود و نصاریٰ سے دوستی تو رکھتا ہے لیکن ان کے مذہب کو باطل اور مذہب اسلام کو حق سمجھتا ہے تو ایسی دوستی اگرچہ حرام اورممنوع تو ہے لیکن اس کی بنیاد پر کفر کا فتویٰ نہیں لگایاجائے گا۔امام رازی الشافعی اور امام ابن عادل الحنبلی ; لکھتے ہیں : ’’موالاۃ الکافر تنقسم ثلاثۃ أقسام۔الأول: أن یرضی بکفرہ‘ ویصوبہ‘ ویوالیہ لأجلہ‘ فھذا کافر‘ لأنہ راض بالکفر ومصوب لہ۔ الثانی: المعاشرۃ الجمیلۃ بحسب الظاھر‘ وذلک غیر ممنوع منہ۔ الثالث: المولاۃ: بمعنی الرکون إلیھم والمعونۃ والنصرۃ إما بسب القرابۃ وإما بسبب المحبۃ مع اعتقاد أن دینہ باطل فھذا منھی عنہ ولا یوجبہ الکفر۔‘‘ (18) ’’ کافر سے تعلق ولایت تین قسم پر ہے: پہلی قسم تو یہ ہے کہ کوئی مسلمان اس کے کفر پر راضی ہو اور اس کے کفر کی تصویب کرتا ہو اور اسی وجہ سے اس سے قلبی تعلق رکھتا ہو تو ایسا شخص بھی کافر ہے کیونکہ یہ کفر پر راضی بھی ہے اور کفر کی تصدیق بھی کرتا ہے۔ دوسری قسم اس تعلق کی ہے کہ جس میں کسی کافر سے ظاہری طور پر اچھے طریقے سے معاشرت اختیار کرنا مقصود ہواور ایسا تعلق ممنوع نہیں ہے۔تیسری قسم اس تعلق کی ہے کہ جس میں کافروں پر اعتماد ‘ ان کی اعانت اور نصرت ہواور اس کا سبب یا تو قرابت داری ہو یا پھران کی محبت ہو لیکن ساتھ ہی ساتھ یہ عقیدہ بھی ہو کہ ان کا دین باطل ہے تو ایسا تعلق اگرچہ ممنوع ہے لیکن موجب کفر نہیں ہے۔ ‘‘ دوسری بات یہ ہے کہ مسلمان ممالک کے حکمرانوں کی اکثریت یہود و نصاریٰ سے دوستیاں اس وجہ سے کرتی ہے کہ وہ ان سے ڈرتے ہیں ۔یعنی یہود و نصاریٰ کی ٹیکنالوجی کا ڈر‘ آسائش پسندی‘ کاہلی و سستی ‘ موت کا خوف اور دنیا ومال کی محبت وغیرہ ایسے امور |