ذلک وذلک قولہ ﴿فَتَرَی الَّذِیْنَ فِیْ قُلُوْبِھِمْ مَّرَضٌ یُسَارِعُوْنَ فِیْھِمْ یَقُوْلُوْنَ نَخْشٰی اَنْ تُصِیْبَنَا دَائِرَۃٌ ﴾۔‘‘ (16) ’’ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ یہ آیت مبارکہ ایسے منافق کے بارے میں نازل ہوئی ہے جو اپنے بارے میں آنے والے زمانے کے حالات کے خوف سے کسی یہودی یا عیسائی کو قلبی دوست بنا لیتا تھا۔اس آیت مبارکہ کے بعد والی آیت اس بات پر دلالت کر رہی ہے اور وہ یہ آیت ہے:﴿فَتَرَی الَّذِیْنَ فِیْ قُلُوْبِھِمْ مَّرَضٌ یُسَارِعُوْنَ فِیْھِمْ یَقُوْلُوْنَ نَخْشٰی اَنْ تُصِیْبَنَا دَائِرَۃٌ ﴾۔‘‘ پس اب ہم اس آیت کے قطعی و ظنی مفہوم کی تنقیح کی طرف آتے ہیں ۔ اگر تو حکمران اعتقادی منافق ہوں یعنی وہ یہود و نصاریٰ کے مذہب کو باطل نہیں سمجھتے یا اپنے مذہب کی حقانیت کا انہیں یقین نہیں ہے اور پھربھی یہود و نصاریٰ سے دوستی لگاتے ہیں تو ان کی تکفیر جائز ہے۔ لیکن قابل غور بات یہ ہے کہ آپ کے زمانے کے اعتقادی منافقین کے عقیدے کے بارے میں تو بذریعہ وحی آپ کو علم ہو جاتا تھا لیکن آج کل کے اعتقادی منافق کے نفاق کے بارے میں علم کا کوئی ذریعہ ہمارے پاس نہیں ہے۔یہی وجہ ہے کہ امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ اور بعض سلف صالحین کا کہنا یہ ہے کہ اعتقادی نفاق صرف آپ کے زمانے میں تھا‘ اس کے بعد عملی نفاق ہے جس کا احادیث میں تذکرہ ہے۔کیونکہ آپ کے زمانے میں عقیدے کا نفاق بذریعہ آیات قرآنیہ معلوم ہوتاتھا اور آج ہمارے پاس کوئی ایسا آلہ نہیں ہے کہ جس کے ساتھ ہم کسی کے باطن میں جھانک کر یا کسی کا دل چیر کر معلوم کر سکیں کہ اس میں نفاق ہے یا نہیں ۔پس ہمارے حکمرانوں پر عملی نفاق کا فتویٰ تولگے گا کیونکہ ان میں عملی نفاق کی ساری نشانیاں پائی جاتی ہیں لیکن اعتقادی نفاق کا نہیں ۔یہ بھی واضح رہے کہ بلاشبہ آج بھی اعتقادی منافق ہو سکتے ہیں لیکن بحث یہ ہو رہی ہے کہ کسی کے اعتقادی نفاق کو معلوم کرنے کا کوئی ذریعہ ہمارے پاس نہیں ہے اِلا یہ کہ وہ شخص خود بتلائے کہ میں اعتقادی منافق ہو۔ پس جب کوئی حکمران یا عامی اپنے اسلام کا اظہار کر رہا ہو تو اس کو اعتقادی منافق قرار دینا ناممکن‘ ناقابل فہم اورخلاف نصوص ہے۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿وَلَا تَقُوْلُوْا لِمَنْ اَلْقٰی اِلَیْکُمُ السَّلٰمَ لَسْتَ مُؤْمِنًا﴾ (17) |