Maktaba Wahhabi

94 - 222
اور عشاء کی سد سکندری پر(فضائل حج فصل ۱۰،اللہ والوں کے قصے،قصہ ۶۲)۔ یہ حکایت بھی مسئلہ طیّ الارض سے تعلق رکھتی ہے اس قسم کا طیّ الارض بطور معجزہ ہمارے نبی کو نہیں ملا دوسروں کو اسکاحاصل ہونا کہاں ممکن ہے،اس لیے یہ بھی صوفی کا سفید جھوٹ ہے۔اس صوفی نے یہ نہیں بتایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں خضر اسی طرح مکہ و مدینہ آیا کرتے تھے یا نہیں اگر آیا کرتے تھے تو مکہ و مدینہ میں انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات کیو ں نہیں کی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لاکر مسلمان کیوں نہیں ہوئے۔جو شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں زندہ تھا اور وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچ بھی سکتا تھا پھر بھی وہ آکر مسلمان نہیں ہوا وہ کافر ہے۔ان صوفیوں کو شرم نہیں آتی یہ خضر کو زندہ مان کر ان کے کافر ہونے کے درپے کیوں ہیں۔ان لوگوں نے شیطان کو خضر مان رکھا ہے کیونکہ وہ مخلوق جو انسانی آنکھ سے اوجھل ہے وہ جن ہے،جن کا معنی ہے آنکھوں سے اوجھل مخلوق۔خضر علیہ السلام انسان تھے اگر وہ زندہ ہیں تو لوگوں کی آنکھوں سے اوجھل کیوں ہیں،اگر وہ صبح کی نماز مکہ میں پڑھتے ہیں تو پھر وہ عام مسلمانوں کو نظر کیوں نہیں آتے،اگر وہ واقعی بیت اللہ میں موجود ہوتے ہیں اور نظر بھی نہیں آتے تو وہ یقینا انسان نہیں دوسری مخلوق ہیں،لہذا وہ خضر شیطان ہوسکتا ہے،وہ خضر نہیں جو موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ ہم سفر تھا جن کا ذکر سورہ کہف میں آیاہے۔ اگر خضر علیہ السلام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں بھی زندہ تھے تو آج وہ صحیح مسلم کی حدیث کی رو سے زندہ نہیں ہیں۔ ٔن عبداللّٰه بن عمر قال صلیٰ بنا رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم ذات لیلۃ،صلاۃ
Flag Counter