Maktaba Wahhabi

14 - 222
جامع ہے۔جب اللہ تعالیٰ کی ایک صفت انسان کے علاوہ باقی مخلوق میں ہوئی تو وہ جزوی خدا ہوئی اور انسان مکمل خدا ہواکیونکہ اس کے اندر اللہ تعالیٰ کی تمام صفات موجود ہیں۔اور حلاج کا یہ قول جس کو حکیم الامت اشرف علی تھانوی صاحب نے لکھا ہے کہ میری دوحیثیتیں ہیں ایک ظاہر کی اور ایک باطن کی۔میرا ظاہر میرے باطن کو سجدہ کرتا ہے۔انہوں نے یہ بات اس سوال کے جواب میں کہی تھی کہ تم اپنے آپ کو خدا کہتے ہوتو نماز کس کی پڑھتے ہو؟توانہوں نے یہی مذکورہ جواب دیا تھا۔ان کا یہ جواب اس عقیدے کی بنیاد پر ہے کہ انسان کی روح مخلوق نہیں یہ خالق کی تجلی ہے۔اس لئے یہ انسان خالق و مخلوق کا جامع ہے اس کا ظاہری بدن مخلوق ہے اور اس کی روح خالق کی روح ہے۔ صوفیاء اس کو روح اعظم بھی کہتے ہیں،اس لئے صوفیاء کے مذہب میں خالق کائنات اگر موجود ہے تو اسی انسان میں موجود ہے اس انسان کے باہر اس کا کوئی وجود نہیں،اسی عقیدے کو وحدۃ الوجود کہتے ہیں۔یعنی اس کائنات میں ایک ہی ذات کا وجود ہے اور وہ اللہ کا وجود ہے اس کے علاوہ اس کائنات میں کوئی دوسری چیز موجود نہیں ہے۔یہاں ظاہر میں جو مخلوق نظر آتی ہے وہ اللہ کا غیر نہیں بلکہ اس کے اسماء و صفات ہیں جیسا کہ اس کتاب میں حاجی امداد اللہ کے کلام میں قرآنی آیت ’’اللّٰه لا الہ الاہو لہ الاسماء الحسنیٰ‘‘(طہ:)کی تفسیر و تشریح میں بیان ہوا ہے۔حاجی امداداللہ نے صاف طور پر بیان کیا ہے کہ آدم علیہ السلام کو سجدہ اس لئے ہوا کہ وہ اللہ کا مظہر تھے یعنی اللہ تعالیٰ آدم کی شکل و صورت میں ظاہر ہوا۔اور حاجی صاحب نے یہ انکشاف بھی فرمایاکہ بیت اللہ کو بھی اسی لئے طواف کیا جاتا ہے کہ وہ اللہ
Flag Counter