Maktaba Wahhabi

101 - 222
رہتا ہے اللہ تعالیٰ بندے کے اندر ایسے گھل مل جاتا ہے جیسے دودھ کے ساتھ پانی یا جیسے شکر پانی میں گھل مل جاتی ہے۔اس کی تفسیر میں صوفیاء کہتے ہیں انسان کے اندر جو روح ہے وہ اللہ تعالیٰ کی روح ہے اس روح کو وہ مخلوق نہیں کہتے بلکہ کہتے ہیں یہ اللہ تعالیٰ کی صفات میں سے اس کی ایک صفت ہے اور اللہ تعالیٰ کی تمام صفات غیر مخلوق ہیں اس لئے انسان کے اندر روح بھی ان کے نزدیک غیر مخلوق ہے اسی عقیدے کی بنیاد پر حسین بن حلاج نے خدائی دعویٰ کیا تھا۔ دیوبندی جماعت کے حکیم الامت اشرف علی صاحب تھانوی فرماتے ہیں:لوگوں نے خدائی دعوے کئے ہیں مگر حسین بن منصور حلاج پر شبہ نہ کیا جائے کہ انھوں نے(انا الحق)میں خدائی کا دعویٰ کیا تھا کیو نکہ ان پر ایک حالت طاری تھی ورنہ وہ عبدیت کے بھی قائل تھے چنانچہ وہ نماز بھی پڑھتے تھے کسی نے پوچھا کہ جب تم خدا ہو نماز کس کی پڑھتے ہو ؟جواب دیا کہ میری دو حیثیتں ہیں ایک ظاہر،ایک باطن۔میرا ظاہر میرے باطن کو سجدہ کرتا ہے(الافاضات الیومیہ ج۱ ص ۲۵۱)۔ اس سے معلوم ہوتا ہے یہ حلاج اپنے آپ کو باطن میں خدا مانتا تھا اور باطن سے مرادروح ہے یعنی وہ اس روح کو اللہ تعالیٰ کی پیدا کردہ مخلوق نہیں سمجھتا تھا بلکہ رب کی ذاتی روح سمجھتا تھا گویا یہ انسان اس عقیدے میں رب و عبد سے مرکب ہے یہی انسان رب بھی ہے اور عبد بھی ہے۔العیاذ باللہ تعالی۔
Flag Counter