Maktaba Wahhabi

85 - 342
ہے، اس لیے میں نے حمیری سے کچھ منگوا لیا ہے۔ عوف بن مالک رضی اللہ عنہ کہنے لگے کہ آپ یہ پورا سامان اس حمیری کو دے دیں ورنہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے اس مال کے حوالے سے ضرور سوال اٹھاؤں گا۔ اس کے باوجود حضرت خالد رضی اللہ عنہ نے وہ مال واپس کرنے سے انکار کر دیا۔ لشکر واپس مدینہ طیبہ آ گیا۔ سیدنا عوف بن مالک رضی اللہ عنہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات کرتے ہیں۔ دوران ملاقات انھوں نے اس حمیری کا سارا واقعہ بیان کر دیا اور سیدنا خالد رضی اللہ عنہ کا مؤقف بھی بیان کر دیا۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے خالد بن ولید رضی اللہ عنہ سے پوچھا:(یَا خَالِدُ! مَاحَمَلَکَ عَلٰی مَا صَنَعْتَ؟ ) ’’خالد! تم نے ایسا کیوں کیا؟‘‘ سیدنا خالد رضی اللہ عنہ کہنے لگے:اللہ کے رسول! میرے نزدیک وہ سازو سامان ایک آدمی کے لیے بہت زیادہ تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا:(رُدَّعَلَیْہِ الَّذِي أَخَذْتَ) ’’حمیری سے جو کچھ لیا ہے، اسے واپس کر دو۔‘‘ عوف بن مالک رضی اللہ عنہ کے حق میں فیصلہ ہو گیا تو بشری تقاضوں کے مطابق انھوں نے خالد رضی اللہ عنہ سے کہا:ہاں خالد، مزہ چکھ لو۔ کیا میں نے اپنی بات پوری نہیں کر دکھائی؟ کیا میں نے تم سے نہیں کہا تھا کہ حمیری کا سامان واپس کر دو؟ تم نے نہ دیا تو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے شکایت کرکے سامان واپس کرا دیا ہے۔ قارئین کرام! یہ بات اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچ گئی کہ عوف رضی اللہ عنہ نے خالد رضی اللہ عنہ کی تنقیص اور اہانت کی کوشش کی ہے۔ اس حد تک تو بات درست تھی کہ اس حمیری کو سامان واپس ملنا چاہیے تھا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مداخلت سے واپس مل گیا مگر اگلی بات کہ خالد رضی اللہ عنہ کو یہ کہنا کہ تم نے مزہ چکھ لیا، یہ شخصی مسئلہ بن
Flag Counter