Maktaba Wahhabi

86 - 342
گیا۔ اس طرح عوف رضی اللہ عنہ خالد رضی اللہ عنہ کے سامنے اپنے انتقامی جذبے کی تسکین اور ان کی تحقیر کا اظہار کر رہے تھے۔ اب دیکھیے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا رد عمل کیا ہے؟ تربیت اور تزکیۂ نفس اسی کا نام ہے اور یہی اعلیٰ اخلاق ہے کہ آپ کو جب ساری بات معلوم ہوئی تو سخت ناراضی کا اظہار کیا اور فرمایا:(یَاخَالِدُ لَاتَرُدَّہُ عَلَیْہِ) ’’خالد! اب اس کا سامان واپس نہ کرنا۔‘‘ مزید ارشاد فرمایا:( ھَلْ أَنْتُمْ تَارِکُوا لِي أُمَرَائِي) ’’کیا تم میرے مقرر کردہ امیروں کو میری و جہ سے معاف نہیں کر سکتے؟‘‘ (لَکُمْ صَفْوَۃُ أَمْرِھِمْ وَ عَلَیْھِمْ کَدَرُہُ) ’’ان کے معاملے کا صاف صاف تمھارے لیے اور معاملے کا گدلا پن ان کے اپنے ذمے ہے۔‘‘ (صحیح مسلم، حدیث:1753، ومسند أحمد:26/6، والسیرۃ النبویۃ للصلابي:496/2) قارئین کرام! امراء و قائدین سے بھی بہ تقاضا ئے بشریت غلطی کا امکان باقی رہتا ہے۔ ایسے میں کمی کوتاہی واقع ہونے کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا امراء کی حمایت و تائید میں یہ مؤقف نہایت اعلیٰ ہے۔ ان کی اصلاح کی کوشش ہونی چاہیے مگر تنقیص و اہانت کے بغیر۔ سیدنا خالد رضی اللہ عنہ نے جب اس حمیری مجاہد کو مکمل سلب لینے سے رو کا تو انھوں نے اس کی بے عزتی ہرگز نہیں کی بلکہ اجتہاد کے تحت مصلحت عامہ کو سامنے رکھا کہ یہ مال ایک آدمی کے لیے بہت زیادہ ہے۔ اگر اسے عام مال غنیمت میں شامل کر لیا جائے تو متعدد مجاہدین کے لیے فائدہ مند ہو سکتا ہے۔
Flag Counter