Maktaba Wahhabi

84 - 342
کو تھاما اور مسلمانوں کو آواز دی کہ اپنا قائد چن لیں۔ انھیں دیگر ساتھیوں نے امارت کی پیش کش کی مگر انھوں نے معذرت کرلی اور لوگوں نے سیدنا خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کا انتخاب کر لیا۔ اس جنگ میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک صحابی عوف بن مالک اشجعی رضی اللہ عنہ بھی شریک تھے۔وہ اس واقعے کے راوی ہیں کہتے ہیں:ہم رومی لشکروں سے ٹکرائے۔ ایک رومی سردار سرخ رنگ کے گھوڑے پر سوار تھا جس کی زین اور اسلحہ پر سونے کا ملمع کیا گیا تھا۔ وہ مسلمانوں کو بے تحاشا نقصان پہنچانے لگا۔ مسلمانوں کو جو کمک ملی اس میں یمن کے مشہور قبیلے حمیر کا ایک بہادر بھی شامل تھا۔ اس نے جب اس رومی کو دیکھا کہ وہ مسلمانوں کو مسلسل نقصان پہنچا رہا ہے تو وہ ایک چٹان کے پیچھے چھپ کر بیٹھ گیا۔ جب رومی اس کے قریب سے گزرا تو اس نے اچانک اس کے گھوڑے پر حملہ کر دیا۔ گھوڑا اپنا توازن برقرار نہ رکھ سکا، سوار سمیت گر گیا۔ رومی سردار اپنی جان بچانے کے لیے بھاگا تو حمیری نے اس کا پیچھا کیا اور اس پر حملہ کرکے اسے قتل کر دیا۔ رومی کا گھوڑا، اس کی زین، اس کا اسلحہ اب حمیری کے قبضے میں آگیا۔ یہ نہایت قیمتی سامان تھا جس میں سونا بھی تھا۔ جب مسلمانوں کو فتح حاصل ہوئی تو حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے اس حمیری کو پیغام بھیجا کہ اس سامان میں سے کچھ سامان انھیں بھجوادیں۔ خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کا یہ اجتہاد تھا کہ ان کے نزدیک یہ مال غنیمت بہت زیادہ تھا، چنانچہ اس حمیری نے کچھ مال غنیمت سیدنا خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کو بھجوا دیا۔ اِدھر سیدنا عوف بن مالک اشجعی رضی اللہ عنہ کے نزدیک یہ بات درست نہ تھی۔ وہ خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کے پاس گئے اور ان سے کہا کہ خالد! آپ کو علم نہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مقتول کا سامان سلب قاتل کو دلایا ہے۔ سیدنا خالد رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ آپ کی بات درست ہے مگر میرے نزدیک یہ سامان بہت زیادہ
Flag Counter