Maktaba Wahhabi

316 - 342
سے آپ شدید محبت کرتے تھے،انہیں ارشاد فرمایا: (أَفَتَّانٌ أَنْتَ، أَفَتَّانٌ أَنْتَ، أَفَتَّانٌ أَنْتَ؟) ’’کیا تم لوگوں کو فتنے میں مبتلا کرنا چاہتے ہو؟ کیا تم لوگوں کو فتنہ میں مبتلا کرنا چاہتے ہو؟ کیا تم لوگوں کو فتنے میں مبتلا کرنا چاہتے ہو؟ ‘‘ جب تم لوگوں کو امامت کراؤ تو سورہ والشمس، اور سبح اسم ربک الأعلی، واللیل إذا یغشی جیسی چھوٹی چھوٹی سورتیں پڑھا کرو۔ تمھارے پیچھے نماز پڑھنے والوں میں بڑی عمر کے لوگ ، ضعیف اور اصحاب حاجت لوگ ہوتے ہیں ( ان کا خیال رکھو)۔‘‘، ، صحیح البخاري، حدیث:705،6106، و صحیح مسلم، حدیث:465۔ قارئین کرام! یہ تھا اللہ کے رسول کا اخلاق کہ آپ نماز پڑھاتے وقت بھی ہر قسم کے لوگوں کا خیال رکھنے کا حکم دے رہے ہیں۔ اور پھر انصاری نوجوان سے مخاطب ہوئے اور ارشاد فرمایا: (کَیْفَ تَصْنَعُ یَا ابْنَ أَخِي إِذَا صَلَّیْتَ) ’’بھتیجے! ذرا یہ تو بتاؤ کہ جب تم نماز ادا کرتے ہوتو کیا کرتے ہو؟‘‘ اس نے بتایا کہ میں سورۂ فاتحہ پڑھتا ہوں۔ جب تشہد میں بیٹھتا ہوں تو میں اللہ تعالی سے دعا کرتا ہوں:(اَللّٰہُمَّ إِنِّي أَسْأَلُکَ الْجَنَّۃَ وَأَعُوذُ بِکَ مِنَ النَّارِ) ’’اے اللہ! میں تجھ سے جنت کا سوال کرتا ہوں اور جہنم سے بچنے کے لیے تیری پناہ مانگتا ہوں۔ ‘‘ پھر اس نوجوان نے بالکل عامیانہ زبان میں کہا:(أَمَا وَاللّٰہِ مَا أُحْسِنُ دَنْدَنَتَکَ وَلَا دَنْدَنَۃَ مُعَاذٍ)‘ ’’اللہ کی قسم! بات یہ ہے کہ میں تو آپ اور معاذ جیسی لمبی دعائیں اور اللہ سے سرگوشیاں نہیں کرسکتا۔‘‘ قارئین کرام! اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اپنی امت کے لیے کتنے شفیق اور مہربان ہیں۔اگر سچ پوچھیں تو مجھ سمیت کتنے ہی ایسے لوگ ہیں جنھیں لمبی چوڑی دعائیں نہیں آتیں۔ ہم عجمی لوگ ہیں۔ جب دعا کے لیے ہاتھ اٹھاتے ہیں تو بس اپنی زبان میں جو دعائیں آتی ہیں مانگ لیتے ہیں۔ اب دیکھیے اللہ کے رسول کے اعلیٰ اخلاق کو کہ آپ اس نوجوان انصاری صحابی کو کن الفاظ میں تسلی دیتے ہیں۔ ارشاد فرمایا:(حَوْلَہَا نُدَنْدِنُ)‘ ’’فکر نہ کرو میں اور معاذ بھی اسی طرح کی ہی دعائیں مانگتے ہیں۔‘‘، ، سنن أبي داود، حدیث:790، 793، و سنن ابن ماجہ، حدیث:910۔
Flag Counter