Maktaba Wahhabi

111 - 342
ادھر حارثہ بن شراحیل کلبی اپنے بیٹے کی و جہ سے سخت پریشان تھا ۔ اس کی والدہ اپنے بیٹے کو یاد کرکے ہر وقت روتی رہتی تھی۔ زید کو تلاش کرنے کی پوری کوشش کی جارہی تھی۔ حارثہ نے چاروں طرف اعلان کروا رکھا تھا کہ کوئی شخص اسے اس کے بیٹے کے بارے میں اطلاع دے گا تو وہ اسے منہ مانگی قیمت دے کر چھڑوا لائے گا۔ اس کے جاننے والے کنبہ قبیلہ کے لوگ جہاں بھی جاتے، زید کے بارے میں معلوم کرتے۔ ایک مرتبہ کچھ لوگ عمرہ یا حج کرنے کے لیے مکہ مکرمہ آئے تو انھیں زید کے بارے میں معلوم ہوا کہ وہ مکہ مکرمہ میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ہے۔ انھوں نے زید کے والد حارثہ کو اطلاع دی تو اس نے بھاری رقم ساتھ لی، اپنے بھائی کو ہمراہ لیا اور مکہ مکرمہ آگیا۔ یہ نبوت ملنے سے پہلے کا واقعہ ہے۔ حارثہ اپنے بھائی کے ہمراہ مکہ مکرمہ پہنچا تو سیدھا اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا۔ اس نے آتے ہی بتادیا کہ وہ اپنے بیٹے کو چھڑانے کے لیے آیا ہے اور اپنے ساتھ معقول معاوضہ بھی لایا ہے۔ دونوں بھائی اللہ کے رسول سے کہنے لگے:آپ جتنا بھی معاوضہ طلب فرمائیں ہم دینے کے لیے تیار ہیں، بس ہمارے بیٹے کو ہمارے حوالے کردیں۔ قارئین کرام! اب ذرا اخلاق نبوی پر غور کیجیے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا:’’میں آپ لوگوں سے کوئی معاوضہ نہیں لوں گا۔ زید میری طرف سے آزاد ہے۔ بس اس سے پوچھ لو کہ اگر وہ تمھارے ساتھ جانا چاہتا ہے تو اسے لے جاؤ۔ مجھے کوئی اعتراض نہیں۔ میں آزادی کا اختیار تمھارے بیٹے کو دیتا ہوں اور اگر نہیں جانا چاہتا تو اسے چھوڑ دو۔‘‘سیدنا زید کا والد اور چچا کہنے لگے کہ اس سے زیادہ انصاف کی بات کیا
Flag Counter