اکثر و بیشتر ایسا ہواکہ علماء کی تحریک کے نتیجے میں حکومت وقت کی طرف سے جب بھی قانون و آئین کو اسلامی بنانے کے لیے کچھ ادارے قائم ہوئے یا بورڈ بنائے گئے ‘ یا تو وہ ملکی سیاست کی بھینٹ چڑھ گئے یااگر علمائے حق کو ان اداروں کی نمائندگی کا موقع دیا بھی گیا تو ان کی بیش بہا تحقیقات کو ردی کی ٹوکری کی نذر کر دیا گیا۔اصحاب اقتدار کے اس طرز عمل کی وجہ سے آہستہ آہستہ علماء کے طبقے میں بھی مایوسی اور بددلی اس قدر گھر کر گئی کہ وہ نفاذ اسلام کے لیے پُرامن آئینی و قانونی جدوجہد سے بھی کٹ کر ہمہ تن قرآن و حدیث کی تعلیم وتدریس میں مشغول ہو گئے۔یہ تو تصویر کا ایک رخ ہوا۔ تصویرکا دوسرا رخ یہ ہے کہ افغانستان میں روس کے خلاف جہاد کے نتیجے میں پاکستان کے مذہبی حلقوں میں جذبہ جہاد کی آبیاری ہوئی۔اس جہاد کے نتیجے میں افغانستان میں روس کو شکست ہوئی اور طالبان کی حکومت قائم ہو گئی۔نائن الیون کے بعد افغانستان پر امریکی حملہ ہوا‘امارت اسلامیہ افغانستان ختم ہو گئی اور امریکہ کے خلاف طالبان کی طویل گوریلاجنگ کا آغاز ہوا۔وزیرستان‘ مالاکنڈ ڈویژن‘ سوات اور صوبہ سرحد کے کئی ایک دوسرے حصوں سے مجاہدین کی ایک بڑی تعداد جہاد افغانستان میں شریک ہونے کے لیے افغانستان گئی لیکن وہاں کے طالبان کو اس وقت کے مخصوص حالات کے اعتبار سے تعداد کی نسبت حکمت عملی اور جدیداسلحہ کی زیادہ ضرورت تھی۔پس افغانستان کے ان حالات کے پیش نظر پاکستانی مجاہدین کی اتنی بڑی تعداد طالبان کے لیے ایک اضافی بوجھ تو بن سکتی تھی لیکن مفید بالکل بھی نہ تھی۔ طالبان قیادت سے مشورے کے نتیجے میں یہ مجاہدین واپس پاکستان آ گئے۔دوسری طرف امریکہ نے جب پرویز مشرف حکومت پر القاعدہ ‘ طالبان اور عرب مجاہدین کو پکڑوانے میں تعاون کے لیے دباؤ ڈالا تو پرویز مشرف کی حکومت نے امریکی ڈالروں کے حصول کی خاطر سوات اورمالاکنڈ ڈویژن کے افغانستان سے واپس آنے والے مقامی مجاہدین کو پکڑ پکڑ کر امریکہ کے حوالے کرنا شروع کر دیا جوکہ امریکہ کو اصلاً مطلوب بھی نہ تھے۔ اس عمل کے نتیجے میں صوبہ سرحد کے اس خطے کے عوام میں حکومت کے خلاف شدید نفرت پر مبنی ردعمل پیدا ہوااور پرویز مشرف کی ظالمانہ پالیسیوں کے خلاف انتقامی جذبات نے ایک مقامی تحریک جہاد کی صورت اختیار کرلی۔ فوجی ڈکٹیٹر نے اس تحریک کو دبانے |