بالصلاح والمعافاۃ۔‘‘ (40) ’’ یہ فقہائے ملت ‘ امام ابو حنیفہ‘ امام ابو یوسف اور امام محمدرحمہم اللہ کے مذہب پر اہل سنت و الجماعت کے عقائد کا بیان ہے اور یہ ائمہ حضرات جن اصول دین کا اعتقاد رکھتے تھے اور ان کو رب العلمین کا دین قرار دیتے تھے ‘ یہ [رسالہ]ان عقائد و اصولوں کا بیا ن ہے۔۔۔اور ہم اپنے مسلمان حکمرانوں اور امراء کے خلاف خروج کو جائز نہیں سمجھتے اگرچہ وہ ظلم ہی کیوں نہ کریں ۔اور ہم ایسے حکمرانوں کے خلاف بددعا بھی نہیں کرتے اور نہ ہی ان کی اطاعت سے ہاتھ کھینچتے ہیں اور ان کی اطاعت کو اللہ کی اطاعت میں شمار کرتے ہیں کہ جس کو اللہ نے فرض قرار دیا ہے جب تک کہ یہ حکمران کسی گناہ کا حکم نہ دیں اور ہم ان کی اصلاح اور معافی کی دعا کرتے ہیں ۔‘‘ اسی عقیدے کا اظہار ابن ابی العز الحنفی رحمہ اللہ(۷۳۱ تا ۷۹۲ھ) نے ’عقیدہ طحاویہ‘ کی شرح میں بھی کیا ہے۔وہ لکھتے ہیں : ’’وأما لزوم طاعتھم وإن جاروا‘ فلأنہ یترتب علی الخروج من طاعتھم من المفاسد أضعاف ما یحصل من جورھم‘ بل فی الصبر علی جورھم تکفیر السیئات ومضاعفۃ الأجور‘ فإن اللّٰہ تعالی ما سلط علینا إلا لفساد أعمالنا‘ والجزاء من جنس العمل‘ فعلینا الاجتھاد بالاستغفار والتوبۃ وإصلاح العمل۔قال تعالی ﴿وما أصابکم من مصیبۃ فبما کسبت أیدیکم ویعفوا عن کثیر﴾ وقال تعالی ﴿أ و لما أصابتکم مصیبۃ قد أصبتم مثلیھا قلتم أنی ھذا قل ھو من عندأنفسکم ﴾ وقال تعالی ﴿ ما أصابک من حسنۃ فمن اللّٰہ وما أصابک من سیئۃ فمن نفسک﴾ وقال تعالی ﴿وکذلک نولی بعض الظلمین بعضا بما کانوا یکسبون﴾ فإذا أراد الرعیۃ أن یتخلصوا من ظلم الأمیر الظالم۔فلیترکوا الظلم۔‘‘ (41) ’’ اگرچہ وہ حکمران ظلم کریں ‘ پھر بھی ان کی اطاعت لازم ہے‘ یہ اس وجہ سے ہے |