و نصاریٰ سے تعلق ولایت رکھنا موجب کفر ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:﴿یٰٓاَیھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لاَ تَتَوَلَّوْا قَوْمًا غَضِبَ اللّٰہُ عَلَیْھِمْ﴾(60)اسی طرح ارشاد فرمایا:﴿یٰٓاَیھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّخِذُوا الْیَھُوْدَ وَالنَّصَارٰی اَوْلِیَائَ بَعْضُھُمْ اَوْلِیَائُ بَعْضٍ وَمَنْ یَتَوَلَّھُمْ مِنْکُمْ فَاِنَّہٗ مِنْھُمْ﴾(61) 9۔ مسلمانوں پر یہ واجب ہے کہ ایسے مشرکین اور کفار سے اعلان برات کریں جو نظری طور پر تصور توحید کے قائل نہیں ہیں اور مسلمانوں کی طرف سے دعوت و تبلیغ کے بعد بھی اپنے کفر اور شرک پر مصر رہیں ۔مسلمانوں پر یہ بھی واجب ہے کہ اللہ کا پیغام پہنچانے اور کوئی حجت باقی نہ رہ جانے کے بعد ان مشرکین اور کفار کے ساتھ اپنے دل میں بغض‘ نفرت اور عداوت رکھیں یہاں تک کہ وہ اپنے کفر اور شرک سے باز آ جائیں ۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:﴿قَدْ کَانَتْ لَکُمْ اُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ فِیْ اِبْرَاہِیْمَ وَالَّذِیْنَ مَعَہٗ اِذَا قَالُوْا لِقَوْمِھِمْ اِنَّا بُرَآئُ مِنْکُمْ وَمِمَّا تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ کَفَرْنَا بِکُمْ وَبَدَا بَیْنَنَا وَبَیْنَکُمُ الْعَدَاوَۃُ وَالْبَغْضَائُ اَبَدًا حَتّٰی تُؤْمِنُوْا بِاللّٰہِ وَحْدَہٗ﴾(62) 10۔ اگر کوئی مسلمان مذکورہ بالا احکامات پر عمل نہیں کرتا اور حربی کفار کے دین کو غلط اور اپنے دین کو حق سمجھتے ہوئے ان کے ساتھ تعلق ولایت قائم کرتا ہے تو ایسا شخص گمراہ‘ فاسق و فاجر اور ضال تو ہے لیکن دائرہ اسلام سے خارج نہیں ہے اور اس پر تقریباً تمام علمائے اہل سنت کا اتفاق ہے۔ابن عاشور مالکی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’وقد اتفق علماء السنۃ علی أن ما دون الرضا بالکفر وممالاتھم علیہ من الولایۃ لا یوجب الخروج من الربقۃ الإسلامیۃ ولکنہ ضلال عظیم وھو مراتب فی القوۃ بحسب قوۃ الموالاۃ وباختلاف أحوال المسلمین۔‘‘ (63) ’’علمائے اہل سنت کا اس بات پر اتفاق ہے کہ جب تک کفر پر رضامندی کے بغیر اور کفار سے کسی معاہدے کی بنا پر اس سے تعلق ولایت ہوتو ایسا تعلق اسلام کے دائرے سے اخراج کا باعث نہیں ہے لیکن ایک بڑی گمراہی ضرور ہے اور اس گمراہی کے مراتب بھی کفار سے تعلق ولایت کی شدت اور مسلمانوں کے احوال و |