5۔مسلمانوں کے لیے اپنے ان باپ‘ دادا سے بھی تعلق ولایت یعنی اہل ایمان جیسا تعلق رکھنااور مواخات حرام ہے جو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے دشمن ہوں جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:﴿لاَ تَجِدُ قَوْمًا یُّؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْآخِرِ یُوَآدُّوْنَ مَنْ حَآدَّ اللّٰہَ وَرَسُوْلَہٗ وَلَوْ کَانُوْا آبَائَ ھُمْ اَوْ اَبْنَائَ ھُمْ اَوْ اِخْوَانَھُمْ اَوْ عَشِیْرَتَھُمْ﴾۔(55) ایک اور جگہ ارشاد ہے:﴿یٰٓاَیھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لاَ تَتَّخِذُوْا آبَآئَ کُمْ وَاِخْوَانَکُمْ اَوْلِیَآئَ اِنِ اسْتَحَبُّوا الْکُفْرَ عَلَی الْاِیْمَانِ وَمَنْ یَّتَوَلَّھُمْ مِنْکُمْ فَاُولٰٓئِکَ ھُمُ الظّٰلِمُوْنَ﴾(56) ہاں ! ایسے کافر والدین سے حسن سلوک جائز ہے جیسا کہ بعض روایات میں اشارہ ہے۔ اُم المؤمنین حضرت صفیہ رضی اللہ عنا نے اپنے والد ابو سفیان رضی اللہ عنہ کے بارے میں ‘ جبکہ انہوں نے اسلام قبول نہیں کیا تھا‘آپ سے سوال کیا تو آپ نے ان سے حسن سلوک کی اجازت دی تھی۔(57) 6۔ مسلمانوں کے لیے حربی کفار سے کسی قسم کا بھی قلبی تعلق‘ محبت یا مودت رکھنا حرام ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿لَا تَجِدُ قَوْمًا یُّؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْآخِرِ یُوَادُّوْنَ مَنْ حَآدَّ اللّٰہَ وَ رَسُوْلَہٗ وَلَوْ کَانُوْا آبَآئَ ھُمْ اَوْ اَبْنَائَ ھُمْ اَوْ اِخْوَانَھُمْ اَوْ عَشِیْرَتَھُمْ﴾(58) 7۔ مسلمانوں کے لیے حربی کفار سے کسی قسم کا حسن سلوک کرنا بھی حرام ہے سوائے اس کے وہ مسلمانوں کے خلاف جنگ ترک کر دیں یا اسلام قبول کر لیں ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:﴿لاَ یَنْھٰکُمُ اللّٰہُ عَنِ الَّذِیْنَ لَمْ یُقَاتِلُوْکُمْ فِی الدِّیْنِ وَلَمْ یُخْرِجُوْکُمْ مِّنْ دِیَارِکُمْ اَنْ تَبَرُّوْھُمْ وَتُقْسِطُوْا اِلَیْھِمْ اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الْمُقْسِطِیْنَ۔اِنَّمَا یَنْھٰکُمُ اللّٰہُ عَنِ الَّذِیْنَ قَاتَلُوْکُمْ فِی الدِّیْنِ وَاَخْرَجُوْکُمْ مِّنْ دِیَارِکُمْ وَظَاھَرُوْا عَلٰی اِخْرَاجِکُمْ اَنْ تُوَلُّوْھُمْ وَمَنْ یَّتَوَلَّھُمْ فَاُولٰٓئِکَ ھُمُ الظّٰلِمُوْنَ﴾ (59) 8۔ اگر کوئی مسلمان کسی کافر سے اس بنا پر تعلق ولایت رکھتا ہے کہ وہ اس کافر کے باطل دین پر دل سے راضی ہے یا دین اسلام کو حق دین نہیں سمجھتا تو اس عقیدے کے ساتھ یہود |