Maktaba Wahhabi

63 - 418
ہدایت اور بشارت ہو۔‘‘[1] آیت میں ’’روح القدس‘‘ سے مراد جبریل علیہ السلام ہیں۔یہاں ’’روح‘‘ کے معنی فرشتہ ہیں، جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ’’ہم نے مریم کی طرف اپنی روح بھیجی۔‘‘[2] یعنی اپنے فرشتوں میں سے ایک فرشتہ بھیجا(اوروہ جبریل امین علیہ السلام تھے)۔’’القدس‘‘ کے معنی ہیں، نزہت و طہارت (صفائی ستھرائی) یا پاکیزگی، اور یہاں مراد مقدس فرشتہ ہے۔[3] ایک دوسری آیت میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ١٩٢﴾ نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ ﴿١٩٣﴾ عَلَىٰ قَلْبِكَ لِتَكُونَ مِنَ الْمُنذِرِينَ Ě ’’اور(اے نبی) بلاشبہ یہ (قرآن) رب العالمین کا نازل کردہ ہے۔روح الامین (جبریل) اسے لے کر نازل ہوا آپ کے دل پر، تاکہ آپ ڈرانے والوں میں سے ہوں۔‘‘[4] جبریل علیہ السلام کو جو ’’روح‘‘ کہا گیا ہے، اس کی کئی وجوہ ہیں : ٭ اس لیے کہ وہ ایک پاک روح ہیں، لہٰذا ان کاذکر اس وصف کے ساتھ بیان کرنے میں ان کا اکرام و احترام بھی ہے اوران کے بلند مرتبے کا اظہار و اعلان بھی! ٭ اس لیے کہ دین اسی (روح یا وحی ٔالٰہی) کے ساتھ زندہ ہوتا ہے، جیسے جسم کی زندگی روح کی وجہ سے ہے، اور جبریل ہی انبیاء علیہم السلام کے پاس وحی لانے کے ذمے دار تھے۔
Flag Counter