Maktaba Wahhabi

229 - 418
حکم دیا گیا ہے کہ میں شریعت ، قوانین اور احکام کی تبلیغ کے معاملات میں اور مقدمے اور جھگڑے کے موقع پر تمھارے درمیان عدل کے ساتھ فیصلہ کروں…﴿اَللّٰہُ رَبُّنَا وَ رَبُّکُمْ﴾ یعنی اللہ تعالیٰ ہی ہم سب کا خالق اور ہمارے معاملات کا ذمہ دار ہے۔ ﴿لَنَا أَعْمَالُنَا﴾ یعنی ہمارے اعمال کا بدلہ، چاہے ثواب ہو یا عذاب، ہم سے چوک نہیں سکتا ،وہ یقینا ہمیں مل کر رہے گا ﴿وَلَکُمْ أَعْمَالُکُمْ﴾ یعنی تمھارے اعمال کے اثرات تمھارے ہی لیے ہیں۔ وہ تمھاری حدسے آگے نہیں بڑھ سکتے۔ ایسا نہیں ہو سکتا کہ ہم تمھاری نیکیوں سے استفادہ کریں اور تمھاری برائیوں سے تکلیف اٹھائیں۔‘‘[1] نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو فیصلے کا دن آنے تک اس دنیا میں عدل کرنے کا حکم دیا گیا اور جب وہ دن آ جائے گا جس دن سب کے سب معاملات اللہ تعالیٰ کی طرف پلٹ جائیں گے تو اللہ تعالیٰ فیصلہ کرنے میں عدل کرنے کی ذمہ داری سنبھال لے گا۔ قرآنی شریعت اور قانونِ عدل و انصاف کے تقاضے قرآنی قانون اور شریعت میں عدل کا مفہوم دیگر انسانی ساختہ نظاموں اور قوانین سے بہت مختلف اور ممتاز ہے۔ یہ قوانین عدل کے مفہوم کی ظاہری سطح ہی سے واقفیت رکھتے ہیں جس کاعقل ادراک کر لیتی ہے، جیسے ترازو میں پورا تولنا، خرید و فروخت میں لوگوں کے اموال نہ کھانا، ملاوٹ اور ذخیرہ اندوزی سے اجتناب کرنا وغیرہ۔ لیکن ان قوانین سے عدل کا دوسرا پہلو اوجھل ہے جس کی گہرائی تک پہنچنا صرف اس شریعت ہی کے ذریعے سے ممکن ہے جو معصوم و محفوظ ہے ، جو قلب و ضمیر کو عدل کے ذریعے سے مخاطب کرتی ہے کیونکہ اس کا صدور اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہوا ہے، جو نہایت باریک بین اورخبردار ہے، جو دلوں کے راز اور جو
Flag Counter