Maktaba Wahhabi

58 - 418
والا نہیں ہے، جیسے احادیث ِ قدسیہ اور دیگر کتب سماویہ ۔ ان کو ’’قرآن‘‘ نہیں کہا جاتا، اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو ان کی مثل لانے کا چیلنج نہیں دیا۔ ٭ ’’اس کی تلاوت کے ذریعے سے عبادت کی جاتی ہے ‘‘: اس قید سے بہ طریق آحاد نقل ہونے والی قراء تیں (شاذّہ) اور احادیث قدسیہ نکل گئیں،کیونکہ انھیں پڑھنا قرآن کی طرح عبادت نہیں ہے ۔ ٭ ’’مصاحف میں تحریر شدہ‘‘ :اس قید سے اللہ تعالیٰ کا وہ کلام نکل گیا جو مصاحف میں درج نہیں ہے، جیسے تلاوت منسوخ ہونے والی آیات ہیں ،ان کو قرآن نہیں کہا جاتا۔ ٭ ’’تواتر کے ساتھ منقول‘‘: اس قید سے وہ کلامِ الٰہی نکل گیا جو تواتر سے منقول نہیں ہے، جیسے شاذ قراء تیں جنھیں قرآن نہیں کہاجاتا، اس لیے کہ وہ تواتر کے ذریعے سے نہیں بلکہ بطور آحاد منقول ہیں۔ عظمت ِقرآن کے معنی اور مطلب لفظ ’’عَظُمَ‘‘ کی لغوی تحقیق اورآیاتِ قرآنیہ اوراحادیث نبویہ میں اس لفظ (مادّے) کے استعمالات کی روشنی میں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ’’عظمتِ قرآن‘‘ سے مراد حسب ذیل امور ہیں: ٭ مضامین قرآن کی بلندی اور پر شکوہ، زوردار اورمؤثر اندازِ بیان ٭ قرآن کی پیش کردہ معتدل راہِ عمل ٭ احکام قرآن کی وسعت ٭ قرآن کی قوتِ تاثیر ٭ قرآن کے اہداف و مقاصد کی راستی اور عظمت و برتری ٭ اللہ تعالیٰ کی عظمت وہیبت جو وہ ہر اس چیز کے دل میں پیدا کرتا ہے جو قرآن کوسنتی یا
Flag Counter