Maktaba Wahhabi

375 - 418
جب کسی مسلمان کو یہ پتہ چلے کہ بادشاہوں میں سے کوئی بادشاہ اپنے مصاحبین اور مقربین میں اس کی مدح سرائی کرتا ہے تو کیا اس کا دل مسرت سے لبریز نہیں ہو جائے گا؟ اللہ تعالیٰ کی ذات عالی بے مثال ہے۔ وہ بے ہمتا قادر مطلق ہے۔ پس اس آدمی کی کیا حالت ہو گی جسے یہ معلوم ہو جائے کہ رب ذوالجلال اپنے اعلیٰ اور معزز فرشتوں میں اس کی تعریف کرتا ہے، کیا وہ اس سے خوشی محسوس نہیں کرے گا؟ بلاشبہ یہ بات قرآن کریم کی تلاوت، درس و تدریس اور اس پر تدبر اور عمل کے لیے قائم ہونے والی بابرکت مجالس کی طرف جلد از جلد جانے پر مجبور کرنے کے لیے سب سے عظیم محرک ہے۔ پس اہل قرآن کو اس فضل عظیم اور رفیع الشان قدرو منزلت کی خوش خبری ہو۔ تعجب ہے اس شخص پر جو ان زبردست فضائل کے باوجود قرآن عظیم کی مجالس میں نہ جائے اور سستی اور کسل مندی کا مظاہرہ کرے۔[1] تلاوت قرآن سراسر خیر ہی خیر ہے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((الْمَاهِرُ بِالْقُرْآنِ مَعَ السَّفَرَةِ الْكِرَامِ الْبَرَرَةِ وَالَّذِي يَقْرَأُ الْقُرْآنَ وَيَتَتَعْتَعُ فِيهِ وَهُوَ عَلَيْهِ شَاقٌّ لَهُ أَجْرَانِ)) ’’قرآن کریم کی مہارت رکھنے والا (روز قیامت) معزز اور نیکوکار فرشتوں کے ساتھ ہو گا اور جو قرآن کریم کی تلاوت کرتا ہے اور اٹک اٹک کر اسے پڑھتا ہے اور اس سے اسے مشقت اٹھانی پڑتی ہے تو اس کے لیے دو گنا اجر ہے۔‘‘[2]
Flag Counter