Maktaba Wahhabi

298 - 418
آپ نے یہ سورت آخر تک پڑھی۔ وہ کہتے ہیں کہ میں نے اس سورت کو ذہن نشین کر لیا جبکہ یہ جاہلیت کا زمانہ تھا اور میں مشرک تھا۔ اس کے بعد میں نے اسے دور اسلام میں بھی پڑھا۔ وہ فرماتے ہیں: ’’ مجھے بنو ثقیف نے بلایا اور پوچھنے لگے:تو نے اس آدمی سے کیا سنا ہے؟ میں نے انھیں سورۂ طارق پڑھ کر سنائی تو ان (بنو ثقیف) کے ساتھ جو قریشی تھے انھوں نے کہا: ہم اپنے ساتھی کو زیادہ بہتر طور پر جانتے ہیں۔ جو کچھ وہ کہتا ہے اگر ہم اسے حق سمجھتے تو ضرور اس کی پیروی کرتے۔‘‘[1] پس یہ حقیقت روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بستیوں کا سفر کرتے تھے، لوگوں کے پاس جاتے تھے اور قران عظیم کی آیات تلاوت کر کے انھیں اللہ تعالیٰ کی بندگی کی دعوت دیتے تھے۔ قرآنی آیات سن کر سامعین کے دلوں پر جو زبردست اثر پڑتا تھا وہ اثر طائف کے جلیل القدر صحابی خالد بن ابو جہل عدوانی رضی اللہ عنہ نہیں بھولے کیونکہ وہ کہتے ہیں: ’’میں نے اس سورت کو زمانۂ جاہلیت ہی میں ذہن نشین کر لیا تھا جبکہ میں مشرک تھا، پھر میں نے اسے دور اسلام میں بھی پڑھا۔‘‘ بادشاہوں اور سرداروں کو قرآن کے ذریعے سے دعوت اسلام دینا حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا (نجاشی کے ملک) حبشہ کی طرف ہجرت کے بارے میں فرماتی ہیں: نجاشی نے بڑے بڑے پادریوں کو بھی بلا لیا اور انھیں حکم دیا کہ وہ حضرت جعفر کے گرد اپنی مذہبی کتابیں انجیل وغیرہ کھول کر رکھیں۔حضرت جعفر بن ابو طالب رضی اللہ عنہ سے پوچھا: ’’جو تعلیمات وہ نبی لے کر آیا ہے کیا اس میں سے کچھ تم سنا سکتے ہو؟‘‘پھر نجاشی نیحضرت جعفر بن ابو طالب رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ’’جی ہاں!‘‘ چنانچہ آپ نے ان کے روبرو سورئہ مریم زبانی پڑھی
Flag Counter