Maktaba Wahhabi

302 - 418
وہ ایک دوسرے سے کہنے لگے: ہم حلفیہ کہتے ہیں کہ ابو ولید جس کام کے لیے گیا تھا، وہ اس کے بغیر ہی لوٹ آیا ہے …اس کے بعد ابو ولید نے قریش سے جو گفتگو کی، اس میں اس نے ایک بات یہ بھی کہی: ’’اے جماعت قریش! میری بات مانو اور اس کے مطابق کوئی قدم اُٹھاؤ۔ محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) اور اُن کے عقائد کو جانے دو اور ان سے الگ تھلگ رہو۔ اللہ کی قسم! جو خبر میں نے ان سے سنی ہے (اس کے پیش نظر) ہو سکتا ہے تم پر عذاب آ جائے… اس پر وہ کہنے لگے: اللہ کی قسم! اے ابو ولید! محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم )نے اپنی زبان سے تم پر جادو کر دیا ہے۔‘‘[1] قرآن کریم دُشمنانِ دین کے دلوں میں ہیبت بٹھا دیتا اور ان کے دل دہلا دیتا ہے اور ان کی آنکھوں سے نیند اڑ جاتی ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ قریش مکہ کو دین حق قبول کرنے سے صرف ان کے تکبر اور عناد نے روکا ۔کفار مکہ اچھی طرح جانتے تھے کہ قرآن کا کلام بے حد مؤثر ہے، سامعین کے دلوں پر فوراً اثر کرتا ہے، لہٰذا وہ قرآن کریم کے سننے سے خود بھی ڈرتے تھے اور دیگر لوگوں کے دلوں پر اس کے غلبے سے خوف کھاتے تھے، چنانچہ زیارت کعبہ کے لیے جو وفود مکہ آتے، وہ ان کا استقبال کرتے تھے اور انھیں پہلے ہی سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی گفتگو سننے اور آپ کی مجلس میں جانے سے ڈراتے تھے۔ وہ اسی پر بس نہ کرتے بلکہ آپس میں بھی ایک دوسرے کو قرآن عظیم نہ سننے کی وصیت کرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی بابت فرمایا ہے: ’’اور کافروں نے (ایک دوسرے سے) کہا: تم اس قرآن کو مت سنو اور (جب پڑھا جائے تو) شور مچاؤ تاکہ تم غالب آ جاؤ۔‘‘[2]
Flag Counter