Maktaba Wahhabi

216 - 418
کرنے کا حکم دیا ہے، اس کے برعکس یہ نہیں فرمایا کہ تم ایک قوم کو چھوڑ کردوسری قوم کے مابین ، یا ایک جنس کو چھوڑ کر دوسری جنس کے مابین ، یا ایک رنگ والوں کو چھوڑ کر دوسرے رنگ والوں کے مابین انصاف کے ساتھ فیصلہ کرو۔ یہاں عدل سے مراد یہ ہے کہ مستحق شخص کو اس کا حق اس کے استحقاق کے مطابق دو، مظلوم پر ظلم و زیادتی ختم کراؤ اور لوگوں کے مسائل و معاملات کے حل کے لیے ایسی تدبیر کرو جس سے انھیں فائدہ پہنچے۔‘‘[1] عدل قرآنی قانون و شریعت کا سب سے زیادہ درخشاں پہلو ہے ۔وہ شریعت میں اجتماعیت اور طرزمعاشرت کا معیا ر ہے۔ اسی کی بدولت جماعت کی عمارت قائم ہوتی ہے۔ ہر وہ چھوٹی یا بڑی اجتماعی یکجہتی جو عدل پر قائم نہ ہو،چاہے اس میں زیادہ سے زیادہ قوت، تنظیم اور نظم و ضبط کی پابندی موجود ہو، وہ زوال سے دوچار ہونے والی ہے کیونکہ فیض رساں اور منفعت بخش نظام کی بنیاد صرف عدل ہے،چنانچہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ’’بے شک اللہ عدل اور احسان اور قرابت داروں کو دینے کا حکم دیتا ہے اور بے حیائی، برے کام اور ظلم و زیادتی سے منع کرتا ہے۔ وہ تمھیں وعظ کرتا ہے تاکہ تم نصیحت پکڑو۔‘‘[2] امام قرطبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: یہ آیت کریمہ ان بنیادی احکام سے تعلق رکھتی ہے جن میں پورا دین اور شریعت سمٹ آئی ہے۔‘‘[3] دیگر قوانین اور شریعتوں کی نسبت قرآنی شریعت میں عدل کے نہایت نتیجہ خیز اور گہرے
Flag Counter