Maktaba Wahhabi

88 - 342
سوال بڑا اہم اور معنی خیز تھا۔ احد کے میدان میں مسلمانوں کا بہت نقصان ہوا تھا۔ سید الشہداء امیر حمزہ رضی اللہ عنہ کا غم کبھی بھلا دینے والا نہیں تھا، خود آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دو دانت مبارک شہید ہوئے ، آپ شدید زخمی ہو کر گر گئے ،مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر احد سے بھی زیادہ سخت دن گزر چکا تھا۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سیدہ کو جواب دیتے ہوئے فرماتے ہیں:’’ہاں عائشہ! تمہاری (عرب) قوم کے ہاتھوں مجھے جن مصائب کا شکار ہونا پڑا، ان میں سب سے مشکل اور سنگین دن وہ تھا جب میں اسلام کی دعوت پیش کرنے کے لیے طائف گیا تھا۔‘‘ (صحیح البخاري، حدیث:3231) قارئین کرام! اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے سفر طائف میں آپ کی مبارک زندگی کا ایک خوبصورت پہلو نظر آتاہے۔ اس واقعے میں آپ کے اعلیٰ اخلاق کا پتا چلتا ہے۔ اس واقعے کو پڑھنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ آپ اپنے دشمنوں، بدترین مخالفوں اور اپنے اوپر پتھربرسانے والوں کے لیے بھی کتنے مہربان اور مشفق تھے۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے سوال کے جواب میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو بیان فرمایا، وہ آپ نے پڑھ لیا ہے۔ اب چلیے تھوڑی دیر کے لیے ہم طائف چلتے ہیں جو مکہ مکرمہ سے کم وبیش 100کلومیٹر کے فاصلے پر جنوب مشرق کی طرف واقع ہے۔ مکہ مکرمہ میں تبلیغ کرتے ہوئے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو دس سال ہوچکے تھے۔ شوال کا مہینہ تھا اور عیسوی حساب سے مئی کے آخری یا جون 619ء کے ابتدائی ایام تھے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اپنے آزاد کردہ غلام سیدنا زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ کو ساتھ لے کر طائف روانہ ہوئے۔ طائف میں مکہ مکرمہ کے بڑے بڑے سرداروں کی زمینداریاں تھیں۔ ان کے اپنے باغات تھے۔ یہ علاقہ اس دور میں بھی اپنے باغات اور رنگا
Flag Counter