Maktaba Wahhabi

82 - 342
مکہ مکرمہ پہنچا تو لوگوں نے اس سے کہا: (مَنْ لَمْ یُہَاجِرْ ہَلَکَ وَلَاإِسْلَامَ لِمَنْ لَا ہِجْرَۃَ لَہُ) ’’جس نے ہجر ت کا شرف نہ پایا وہ برباد ہوگیا، بلکہ جس نے ہجرت نہیں کی اس کا تو اسلام ہی قبول نہیں۔‘‘ یہ بات اس کے علم میں آئی تو ہجرت کرکے مدینہ طیبہ آگیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ کا مہمان بنا۔ آپ کو معلوم ہوا تو ارشاد فرمایا:(لَاہِجْرَۃَ بَعْدَ الْفَتْحِ) ’’فتح مکہ مکرمہ کے بعد مکہ مکرمہ سے ہجرت ختم ہوگئی۔‘‘ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ساتھیوں سے حد درجہ محبت رکھتے تھے اور ان کے معمولی سے معمولی کاموں میں بھی ذاتی دلچسپی لیتے تھے۔ پوچھا:صفوان کس کے مہمان بنے ہو؟ عرض کیا:آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا عباس کا۔ فرمایا:( نَزَلْتَ عَلٰی أَشَدِّ قُرَیْشٍ لِقُرَیْشٍ حُبًّا) ’’صفوان! تم ایک ایسی قریشی شخصیت کے مہمان بنے ہو جو قریشوں سے شدید محبت رکھتا ہے۔‘‘ پھر فرمایا:’’ابووہب! مکہ مکرمہ واپس چلے جاؤ، اپنے ڈیرے پر ہی قیام کرو اور لوگوں کو دین کی دعوت دیتے رہو۔‘‘ چنانچہ وہ وفات تک مکہ مکرمہ ہی میں مقیم رہے۔ صفوان مکہ مکرمہ کے ممتاز ترین سرداروں میں سے تھے۔ نہایت فصیح اللسان تھے۔ ان کے خاندان کے بارے میں مؤرخین نے لکھا ہے کہ یہ لوگوں کو کھانا کھلانے والے اور خوب مہمان نوازی کرنے والے شرفاء تھے۔ یہ سلسلہ نسلوں سے چلا آرہا تھا۔ ایک دن حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے لوگوں سے پوچھا:مکہ مکرمہ میں سب سے زیادہ مہمان نواز کون ہے؟ جواب ملا:عبداللہ بن صفوان۔ کہنے لگے:(بَخٍ بَخٍ تِلْکَ نَارٌ لَا تَطْفَأُ) ’’اس گھرانے کے مہمان خانے کی آگ کبھی بجھتی ہی نہیں۔‘‘صفوان بن امیہ بیالیس ہجری میں امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی خلافت کے ابتدائی ایام میں وفات پاگئے اور ان کا مالدار، سخی اورمہمان نواز بیٹا عبداللہ بن صفوان 73ہجری میں مکہ مکرمہ میں عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما کی جانب سے لڑتے ہوئے شہید ہوگیا۔ (الاستیعاب، ص:366،365، والرحیق المختوم، ص:426-413، والسیرۃ النبویۃ لابن ہشام:60/4، و صحیح مسلم:2313، و جامع الترمذي:666، و أسد الغابۃ:25,24/3)
Flag Counter