Maktaba Wahhabi

72 - 342
اگر ہم دورجاہلیت کے غلاموں کی زندگی پر نظر ڈالیں تو معلوم ہوتا ہے کہ ان کے کوئی حقوق نہ تھے۔ ان کے ساتھ جانوروں جیسا سلوک کیا جاتا تھا، مگر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کو دیکھیں کہ آپ نے غلاموں کو معاشرے میں اعلیٰ مقام عطا فرمایا۔ عربوں کے ہاں اگر کوئی غلام آزاد بھی ہوجاتا تھا تو اسے ’’مولیٰ‘‘ کہا جاتا تھا۔ اس کے ساتھ بیٹھ کر کھانا عیب تصور کیا جاتا تھا۔ مگر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق اور آپ کی رحمت ملاحظہ فرمائیں کہ آپ نے غلاموں کو حقوق عطا کرتے ہوئے فرمایا: (وَلَا تُکَلِّفُوہُمْ مَا یَغْلِبُہُمْ فَإِنْ کَلَّفْتُمُوہُمْ مَا یَغْلِبُہُم فَأَعِینُوہُمْ) ’’ان کی طاقت سے بڑھ کر ان پر کام کا بوجھ نہ ڈالو، لیکن اگر تم اپنے نوکروں یا غلاموں کو اس طرح کا مشقت والا کام کہہ دو تو پھر اس کے پورا کرنے میں ان کی خود بھی مدد کرو۔‘‘ (صحیح البخاري، حدیث:30، و صحیح مسلم، حدیث:1661) قارئین کرام! غلاموں کو اس سے زیادہ عزت اور شرف کیا دیا جاسکتا ہے کہ آپ نے سیدنا زید بن حارثہ رضی اللہ عنہما کا نکاح اپنی پھوپھی زاد بہن ز ینب بنت جحش رضی اللہ عنہا سے کردیا اور ان کے بیٹے اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما کا نکاح خاندان قریش کی ایک خاتون فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا سے کر دیا تھا۔ اب ذرا اس طرف آیئے کہ جہاں غلاموں کو ان کی طاقت سے زیادہ کام لینے سے روکا، وہیں ان کو مارنے سے سختی سے منع فرمایا۔ صحیح مسلم میں حدیث ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جو شخص اپنے غلام کو مارے گا اس کا کفارہ یہ ہے کہ وہ اسے آزاد کردے۔‘‘ (صحیح مسلم، حدیث:1657)
Flag Counter