Maktaba Wahhabi

294 - 342
قارئین کرام! آپ کو تو معلوم ہے کہ میدان جنگ میں جب کوئی مسئلہ یا رکاوٹ پیش آ جائے تو اعلیٰ کمانڈ رسے رابطہ کیا جاتا ہے اور یہاں تو اعلیٰ کمانڈر خود مسلسل موقع پر موجود ہیں۔ صحابہ کرام اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوتے ہیں۔ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! فلاں جگہ ایک چٹان آ گئی ہے جو کھدائی میں رکاوٹ ڈال رہی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے ہیں:(أَنَا نَازِلٌ) ’’میں اسے توڑنے کے لیے خود اترتا ہوں۔‘‘ سیدنا جابر بن عبداللہ انصاری رضی اللہ عنہما جو اس واقعہ کو بیان کر رہے ہیں، کہتے ہیں:میں دیکھ رہا ہوں کہ بھوک کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیٹ پر پتھر بندھا ہوا تھا۔ ادھر ہماری یہ کیفیت ہے کہ ہم لوگوں نے بھی تین دن سے کوئی چیز نہیں چکھی تھی۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے کدال ہاتھ میں لی، بسم اللہ پڑھ کر چٹان پر ماری تو وہ بھر بھری ریت کا ٹیلا سا بن گئی۔ ادھر سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما اپنے ذہن میں ایک زرخیز منصوبہ بنا رہے ہیں۔ خندق میں شریک صحابہ کرام کے گھر جانے پر پابندی تھی۔ اگر کسی کو شدید مجبوری ہوتی تو وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوتا، اپنی ضرورت یا مجبوری بیان کرتا تو اسے اجازت مل جاتی۔جابر رضی اللہ عنہ بھی خدمت میں حاضر ہوئے ہیں۔ اللہ کے رسول ( صلی اللہ علیہ وسلم )! مجھے ایک ضروری کام سے گھر جانا ہے، میں اجازت چاہتا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اجازت دے دی اور سیدنا جابر رضی اللہ عنہ اپنے گھر پہنچ جاتے ہیں۔ جابر رضی اللہ عنہ اپنی اہلیہ سے مخاطب ہیں:میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جو حالت دیکھی ہے، اس پر میں صبر نہیں کر پایا۔ نجانے کتنے دنوں سے آپ نے کچھ کھایا نہیں۔ پیٹ پر بھوک کی وجہ سے پتھر بندھا ہوا ہے ۔ بی بی! بتاؤ گھر میں کچھ کھانے کے لیے ہے؟
Flag Counter