Maktaba Wahhabi

244 - 342
ذکر مکہ مکرمہ سے ہمارے پاس پہنچتا رہا ہے۔ میری خواہش ہے کہ میں ان کی صحبت اختیار کروں۔ ان کی رفاقت اختیار کروں۔ اگر مجھے موقع ملا تو ضرور یہ کام کروں گا۔ قارئین کرام! اب ہم دیکھتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اس خاتون کے ساتھ مدینہ طیبہ میں کیا سلوک کیا؟ وقت گزرتے دیر نہیں لگتی۔ تھوڑے عرصے کے بعد ام معبد کی بکریاں بہت زیادہ ہو گئیں۔ ان میں سے ایک ریوڑ کو لے کر وہ مدینہ طیبہ آتی ہیں۔ غالباً انھیں فروخت کرنے کے لیے لائی ہیں۔ ام معبد کے بیٹے نے سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کو دیکھا تو کہنے لگا:اماں جان! یہ تو وہی آدمی ہے جو اس بابرکت آدمی کے ساتھ تھا۔ ام معبد نے سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے پوچھا:اللہ کے بندے! تیرے ساتھ وہ آدمی کون تھا؟ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے پوچھا:ام معبد! کیا تم انھیں نہیں جانتیں؟ ام معبد کہنے لگیں:نہیں۔ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کہنے لگے کہ وہ تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ ام معبد تو پہلے سے ملاقات کرنے کی مشتاق تھیں، چنانچہ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ انھیں لے کر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ قارئین کرام! وفا اسے کہتے ہیں، اخلاق اس کا نام ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ام معبد کے خیمے میں اترنا اور ان کا برتاؤ بھولے نہیں۔ آپ ان کو عزت اور احترام سے نواز رہے ہیں۔ اس سے بڑی کیا بات کہ کائنات کے امام صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی ضیافت فرمائی، ان کو کھانا کھلایا اور انھیں تحائف دے کر رخصت کیا۔ ایک روایت کے مطابق جب ام معبد سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے ہمراہ گئیں تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں اس دیہاتی خاتون نے سوغاتیں اور پنیر پیش کیا۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں لباس اور دیگر تحائف عطا فرمائے اور وہ مسلمان ہوگئیں۔ ’’الوفا‘‘ کے مؤلف نے ذکر کیا ہے کہ ام معبد اور اس کے خاوند نے ہجرت کی۔ ان کا بھائی خنیس بھی مسلمان ہوا اور اس نے فتح مکہ مکرمہ کے دن یہاں شہادت پائی۔، ، السیرۃ النبویۃ لأبي شھبۃ:490-486/1، والمعجم الکبیر للطبراني:50-48/4، حدیث:3605، والسیرۃ النبویۃ للصلابي:446/1 450-، والبدایۃ والنہایۃ:458/3 462-۔
Flag Counter