Maktaba Wahhabi

229 - 342
ہے۔‘‘ دشمن آپ کو دیکھتا تو اس پر رعب طاری ہو جاتا۔، (فَسَقَطَ السَّیْفُ مِنْ یَدِہِ) ’’اس مشرک کے ہاتھ سے تلوار گر پڑتی ہے۔‘‘ اور اب اسے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے مبارک ہاتھ میں تھام لیا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تلوار کو اس کی طرف بڑھایا اور پوچھا:(الآنَ مَنْ یَّمْنَعُکَ مِنِّي؟) ’’یہ بتاؤ کہ اب تمھیں میرے ہاتھ سے کون بچائے گا؟‘‘ ، صحیح البخاري، حدیث:438، و صحیح مسلم، حدیث:521۔ مشرک کو اپنی جان کے لالے پڑ گئے۔ وہ نہ تو یہ کہہ سکتا تھا:اللہ ، اور نہ ہی وہ اپنے جھوٹے معبودوں کا نام لے سکا،وہ کانپ رہا تھا، کانپتے ہوئے کہنے لگا:کوئی بھی نہیں۔ تلوار تو آپ کے ہاتھ میں ہے۔ آپ چاہیں تو مجھے قتل کر سکتے ہیں۔ ساتھ ہی کہنے لگا:آپ اگر مجھے قتل نہ کریں اور معاف کردیں تو:(أُعَاھِدُکَ أَنْ لَّا أُقَاتِلَکَ أَبَدًا) ’’ میں آپ سے وعدہ کرتا ہوں کہ کبھی آپ سے لڑائی نہ کروں گا۔‘‘ (وَلَاأَکُونُ مَعَ قَومٍ یُقَاتِلُوْنَکَ) ’’اور نہ ہی آپ کے خلاف لڑنے والی قوم کا کبھی ساتھ دوں گا۔‘‘ قارئین کرام! اپنے پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کااخلاق ملاحظہ کریں کہ آپ اس پر قابو پا چکے تھے، آپ اسے قتل کر سکتے تھے مگر آپ نے عفو و درگزر سے کام لیا اور فرمایا:’’اسلام قبول کر لو۔‘‘ وہ کہنے لگا:’’میں تو اسلام قبول نہیں کرتا۔‘‘ اس انکار کے باوجود اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے معاف کر دیا۔ اب وہ اپنی قوم میں جاتا ہے تو لوگوں سے کہتا ہے:(قَدْ جِئْتُکُمْ مِنْ عِنْدِ خَیْرِالنَّاسِ) ’’میں تمھارے پاس سب سے بہترین شخصیت کے ہاں سے آیا ہوں۔‘‘، بعض سیرت نگار جن میں ابن اسحاق اور واقدی شامل ہیں، بیان کرتے ہیں کہ وہ شخص مسلمان ہوا ۔ اس نے اپنی قوم میں جا کر تبلیغ کی اور اس کی بدولت بہت سارے لوگ مسلمان ہو گئے۔ ، صحیح البخاري، حدیث:4135، 2913، وصحیح مسلم، حدیث:843، و 5950، و مسند أحمد:364/3، 365، والسیرۃ النبویۃ للصلابي:249/2، 250۔
Flag Counter