Maktaba Wahhabi

222 - 342
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق کو ملاحظہ کیجیے کہ آپ دونوں بچوں کو باری باری پیار کر رہے ہیں، ان کا منہ چوم رہے ہیں۔ ان کے بال بڑھے ہوئے تھے۔ آپ نے حجام کو طلب کرکے بچوں کے بال منڈوائے۔ اب دیکھیے، ان بچوں کے بارے میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے کہے ہوئے کلمات تاریخ میں ہمیشہ کے لیے رقم ہو جاتے ہیں۔ سب سے پہلے آپ ’’محمد‘‘کو بلواتے ہیں۔ اس کا ہاتھ پکڑ کر فرمایا:’’یہ توہمارے چچا ابو طالب سے ملتا جلتا ہے۔‘‘ پھر عبداللہ کو سینے سے لگایا، ارشاد فرمایا:’’یہ تو صورتاً اور سیرتاً میرے مشابہہ ہے۔‘‘ کائنات کی سب سے مشفق شخصیت ننھے سے عبداللہ کا ہاتھ پکڑ کر دعا فرما رہی ہے: (اَللّٰھُمَّ اخْلُفْ جَعْفَرًا فِي أَھْلِہِ وَ بَارِکْ لِعَبْدِ اللّٰہ فِي صَفْقَۃِ یَمِیْنِہِ) ’’اے اللہ! جعفر کے بعد اس کے گھر والوں کی کفالت فرما اور عبداللہ کی تجارت میں برکت عطافرما۔‘‘ قارئین کرام! اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اس دعا کو تین بار دہرا رہے ہیں۔ بچے چھوٹے چھوٹے تھے۔ ان کی عمر اس وقت کم و بیش آٹھ دس سال تھی۔ سیدہ اسماء رضی اللہ عنہا کو فطری طورپر محتاجی اور فقیری کا ڈر تھا۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو بھی تسلی دی اور فرمایا: ( اَلْعَیْلَۃَ تَخَافِینَ عَلَیْھِمْ وَأَنَا وَلِیُّھُمْ فِي الدُّنْیَا وَالْآخِرَۃِ) ’’کیا تم ان کی محتاجی سے ڈرتی ہو؟ گھبراؤ نہیں! میں دنیا و آخرت میں ان کاسرپرست ہوں۔‘‘، ، سنن أبي داود:4192، و مسند أحمد:204/1، 370/6، و السیرۃ النبویۃ لابن ہشام:22/4، 23، والسیرۃ النبویۃ للصلابي:493/2، 494۔ یہ تھا آپ کے پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا اخلاق کہ آپ یتیموں کے ماویٰ اور محتاجوں کے ملجا تھے۔ عبداللہ بن جعفر رضی اللہ عنہما کو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے تجارت میں برکت کی دعا دی تھی۔ انھوں نے نہایت کم عمری میں تجارت شروع کر دی۔ یہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا کی برکت تھی کہ حق تعالیٰ نے ان کی تجارت میں برکت عطا فرمائی۔ وہ عرب کے بڑے مشہور اور کامیاب تاجرثابت ہوئے۔ اللہ رب العزت نے انھیں بے حد و حساب مال عطا فرمایا۔ یہ اتنے بڑے سخی تھے کہ عربوں کے ہاں سخاوت میں ضرب المثل بن گئے تھے۔
Flag Counter