Maktaba Wahhabi

213 - 342
زید بن ارقم کی صداقت بیان کی گئی تھی۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے اعلیٰ اخلاق کو ملاحظہ کیجیے کہ آپ نے اپنے ایک ساتھی کو حکم دیا:’’جاؤ اور زید بن ارقم کو بلا کر لاؤ۔‘‘ وہ زید رضی اللہ عنہ جوگھر میں پریشان حال بیٹھا ہے، اسے پیغام ملتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تمھیں یاد فرما رہے ہیں۔ وہ جلدی سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت عالیہ میں پہنچتے ہیں۔ ہمیشہ مسکرانے والی، روشن چہرے والی شخصیت نے اپنے چھوٹے سے صحابی کو تسلی دی، اسے تھپکی دیتے ہوئے ارشاد فرمایا:(إِنَّ اللّٰہ قَدْ صَدَّقَکَ یَازَیْدُ!) ’’اے زید! بے شک اللہ تعالیٰ نے تمھیں سچا قرار دیا ہے۔‘‘ ایک روایت کے الفاظ ا س طرح ہیں:اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے زید کو محبت اور پیار کے ساتھ کان سے پکڑا اور ارشاد فرمایا:(ہٰذَا الَّذِي أَوْفَی اللّٰہُ بِأُذُنِہِ)’’یہی ہے وہ جس کے کان سنی بات کو اللہ تعالیٰ نے سچ قرار دیا ہے۔‘‘ قارئین کرام! ذرا اپنے پیارے رسول سید ولد آدم صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق کو ملاحظہ کیجیے کہ آپ نے قرآن کریم کی آیات نازل ہونے اور عبداللہ بن ابی کا جرم ثابت ہونے کے باوجود اس کے قصور کو نظر انداز کر دیا۔ آپ چاہتے تو صحابۂ کرام کو اشارہ کر دیتے اوروہ اس کی گردن اتار کر آپ کے قدموں میں رکھ دیتے، مگر اعلیٰ اخلاق اسے کہتے ہیں کہ جرم ثابت ہونے کے باوجود معاف کیا جا رہا ہے۔اب دیکھیے کہ منافقین کے سرغنے سے نرمی برتنے اور درگزر کرنے کا نتیجہ کیا نکلتا ہے؟ ابن ابی کوئی شرارت کرتا تو اس کی قوم کے لوگ بھی اسے ڈانٹ پلاتے اور سرزنش کرتے تھے۔ اب اس کے اپنے ساتھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے قتل کی اجازت مانگتے لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم درگزر فرماتے رہے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے فرمایا تھا:’’عمر! اب بتاؤ، اللہ کی قسم! اگر میں اس روز اسے قتل کرا دیتا جب تم نے کہا تھا تو اس کی قوم کے لوگوں کے لیے اسے ہضم کرنا خاصا مشکل ہوجاتا۔ آج کیفیت یہ ہے کہ اگر میں اس کے قتل کا حکم دوں تو وہ خود اسے قتل کر دیں گے۔‘‘ اس پر سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے عرض کی:اللہ کی قسم! مجھے معلوم ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان میری بات سے کہیں زیادہ بابرکت ہے۔، ، صحیح البخاري، حدیث:3518،4900، و صحیح مسلم، حدیث:2584، و جامع الترمذي:3312، والرحیق المختوم:340، 341، والسیرۃ النبویۃ لابن ہشام:303/3، 306۔
Flag Counter