Maktaba Wahhabi

211 - 342
دی ہے۔ ارشاد فرمایا:(دَعُوھَافَإِنَّھَا مُنْتِنَۃٌ) ’’اسے چھوڑو، یہبدبو دار بات ہے۔‘‘ لوگ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھتے ہی ٹھنڈے ہوگئے۔ اپنی گردنوں کو جھکا دیا اور اپنے خیموں میں واپس چلے گئے۔ ادھر منافقین کو بڑی تکلیف تھی کہ مسلمانوں نے آپس میں جھگڑا کیوں نہیں کیا۔ جہاں تک رئیس المنافقین عبداللہ بن ابی کا تعلق تھا، وہ تو غصے میں آپے سے باہر ہو رہا تھا۔ اس نے کہا:کیا واقعی مہاجر نے ایک انصاری کو لات ماری ہے؟ اللہ کی قسم! ہم مدینہ طیبہ لوٹیں گے تو ہم میں سے عزت والا ذلیل کو نکال باہر کرے گا۔ عبداللہ بن ابی کی اس بکواس کو چھوٹی عمر کاایک لڑکا زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سن رہا تھا۔ اس نے عبداللہ کی یہ باتیں اپنے چچا کو بتا دیں کہ میں نے ایسا سنا ہے۔ اس کے چچا نے یہ باتیں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو پہنچا دیں۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ وہاں موجود تھے، انھوں نے عرض کی:اللہ کے رسول! مجھے اجازت دیجیے، میں اس منافق کی گردن اتار دوں۔ اور دوسری روایت کے مطابق سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کی:اللہ کے رسول! عباد بن بشر کو حکم دیجیے کہ جا کر اسے قتل کر دے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق کو دیکھیے کہ آپ نے فتنہ و فساد کو ختم کرتے ہوئے فرمایا: (دَعْہٗ، لَایَتَحَدَّثُ النَّاسُ أَنَّ مُحَمَّدًا یَقْتُلُ أَصْحَابَہُ) ’’ اسے چھوڑ دو عمر! لوگ یہ نہ کہیں:محمد اپنے ساتھیوں کو قتل کرتا ہے۔‘‘ ادھر عبداللہ بن ابی کو معلوم ہوا کہ زید بن ارقم نے جو باتیں سنی ہیں وہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو پہنچا دی گئی ہیں تو وہ دوڑا
Flag Counter