Maktaba Wahhabi

203 - 342
ڈاکٹر یحییٰ فرمانے لگے:آپ کی بات درست ہے۔ واقعی کسی بھی شخص کا یہی رد عمل ہوتا ہے اور ہونا بھی چاہیے۔ انھوں نے اپنا پہلو بدلا اور فرمانے لگے:مگر ہمارے پیارے رسول سید الانبیاء محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا معاملہ بالکل مختلف تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم حد درجہ حلیم اور عفو و درگزر کرنے والے تھے اور برائی کا جواب برائی سے کبھی نہیں دیتے تھے۔ پھر انھوں نے مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کا وہ واقعہ سنایا جو آپ ابھی پڑھنے جا رہے ہیں۔ اس واقعے کو امام بخاری سمیت بہت سے محدثین نے بیان کیا ہے۔ ایک مرتبہ یہودیوں کی ایک جماعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملنے کے لیے آپ کے گھر آئی۔ انھوں نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا:(اَلسَّامُ عَلَیْکُمْ) ’’ آپ پر (معاذ اللہ) موت ہو۔‘‘ ان الفاظ کے ذریعے انہوں نے خبث باطن کا اظہار کرتے ہوئے بیک وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو موت کی بد دعا بھی دی اورایک اسلامی شعار (السلام علیکم) کے حروف میں ہیرا پھیری کرکے اس کا مذاق بھی اڑایا۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی ہفوات کو سنا تو آپ ناراض ہوئے نہ ان کو برا بھلا کہا اور نہ ان کو اپنے گھر سے فوراً نکلنے کا حکم دیا بلکہ صرف یہ الفاظ کہے:وَعَلَیْکُمْ ’’اور تم پر بھی ہو۔‘‘ سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا بھی گھر میں موجود تھیں اور یہودیوں کی اس بکواس کو سن رہی تھیں۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین برداشت نہ کر سکیں۔ کہنے لگیں: (اَلسَّامُ عَلَیْکُمْ وَ لَعَنَکُمُ اللّٰہُ وَ غَضِبَ عَلَیْکُمْ) ’’تم پر موت کے ساتھ ساتھ اللہ کی لعنت اور غضب بھی ہو۔‘‘ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے الفاظ سنے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدہ سے فرمایا:’’عائشہ ٹھہر جاؤ! تمھیں نرمی کرنی چاہیے، سختی اور غیر مناسب کلمات سے بچنا چاہیے۔‘‘
Flag Counter