Maktaba Wahhabi

194 - 342
خوبی یہ بھی تھی کہ وہ سچی بات کو بہتعمدہ انداز سے پر اعتماد لہجے میں بیان کرتے تھے ۔پہلی بات جو انھوں نے کہی وہ یہ تھی: (بِئْسَتِ اللَّاتُ وَالْعُزّٰی) ’’کیا ہی برے ہیں لات اور عزیٰ ‘‘۔ قوم کے لوگ بولے: ضمام رک جاؤ۔ یہ ہمارے معبود جس سے ناراض ہو جائیں اسے کوڑھ پن اور جذام میں مبتلا کر دیتے ہیں ، سو ان امراض سے ڈرو اور ان کی مخالفت نہ کرو ۔کہنے لگے:(وَیْلَکُمْ) ’’تمھارا ستیاناس ہو ۔‘‘ (إِنَّھُمَا وَاللّٰہِ لَایَضُرَّانِ وَلَا یَنْفَعَانِ) ’’اللہ کی قسم! یہ دونوں نہ نفع دے سکتے ہیں نہ ہی نقصان پہنچا سکتے ہیں۔‘‘ اللہ رب العزت نے ہماری رہنمائی کے لیے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو مبعوث فرمایا ہے۔ ان پر اپنی کتاب کو نازل فرمایا:(اِسْتَنْقَذَکُمْ بِہِ مِمَّا کُنْتُمْ فِیہِ)’’تم جس گمراہی میں تھے، اس نے تمھیں اس سے نجات دلائی۔‘‘ (وَإِنِّي أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہُ لَاشَرِیکَ لَہُ وَأنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہُ وَ رَسُولُہُ) ضمام بن ثعلبہ رضی اللہ عنہ نے جب کلمۂ شہادت کا اقرار کیا تو شام ہونے تک تمام مرد وخواتین مسلمان ہو چکے تھے۔ سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں:ہم نے اپنی قوم کے لیے ضمام بن ثعلبہ سے بہتر کوئی نمائندہ نہیں دیکھا۔، ، صحیح البخاري، حدیث:63، و صحیح مسلم، حدیث:12،14، وسنن أبي داود، حدیث:486،487، و سنن ابن ماجہ، حدیث:1402، و صحیح السیرۃ لإبراہیم العلي:503-502، والاستیعاب:380-379، و مسند أحمد:264/1، والإصابۃ:395/3، ومجموع الفتاوی لابن تیمیۃ:368-366/4۔
Flag Counter