Maktaba Wahhabi

187 - 342
یہ واقعہ جس کی اصل صحیح مسلم اور مسند احمد میں ہے، اس کے راوی عمران بن حصین رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ اس عورت نے اس اونٹنی پر بیٹھے بیٹھے یہ نذر مان لی کہ اگر یہ صحیح سلامت اسے مدینہ طیبہ لے گئی تو وہ اسے ذبح کر دے گی۔ العضباء اسے لیے مدینہ طیبہ پہنچ جاتی ہے۔ اس عورت کو قطعاً معلوم نہ تھا کہ یہ اونٹنی اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ہے۔ لوگوں نے اونٹنی کو دیکھا تو کہنے لگے:ارے ارے! یہ تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اونٹنی ’’العضباء‘‘ہے۔ عورت کہنے لگی:میں نے تو نذر مانی ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ نے مجھے نجات دی تو میں اسے ذبح کر دوں گی۔ لوگوں نے اس پر تعجب کیا اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر سارا واقعہ بیان کیا۔ قارئین کرام! اب دیکھیے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کس طرح ایک حیوان کے ساتھ رحمت اور شفقت کا برتاؤکرتے ہیں۔ ارشاد فرمایا:(بِئْسَمَا جَزَتْھَا) ’’اس خاتون نے اس بے زبان کے احسان کا بہت برا بدلہ دیا ہے۔‘‘ مراد یہ کہ وہ اسے دشمنوں کے چنگل سے چھڑوا کر لائی اوریہ اس کا بدلہ اس طرح دے رہی ہے کہ اسے ذبح کرنے کے در پے ہے۔ قارئین کرام! ا س موقع پر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک اصول اور قانون بیان فرمادیا: (لَاوَفَائَ لِنَذْرٍ فِي مَعْصِیَۃٍ) ’’ گناہ کے کاموں کی نذر کو پورا نہیں کیا جائے گا۔‘‘ (وَلَا فِیْمَا لَا یَمْلِکُ الْعَبْدُ) ’’جس چیز کا کوئی شخص مالک نہیں ہے اس کے بارے میں وہ نذر نہیں مان سکتا۔‘‘یہ خاتون اس اونٹنی کی مالک تو نہ تھی، لہٰذا اسے کیسے اور کہاں سے اجازت مل گئی کہ اسے ذبح کرے۔، ، صحیح مسلم، حدیث:1641، و مسند أحمد:434-432/4۔
Flag Counter