Maktaba Wahhabi

186 - 342
باندھ دیا۔ اس عورت نے سوچنا شروع کیا کہ وہ کس طرح ان کے چنگل سے آزاد ہو سکتی ہے۔ رات کا وقت تھا، یہ لوگ تھکے ہوئے تھے۔ اپنے باڑوں اور گھروں کے سامنے ہی سو گئے۔ ادھر یہ عورت جاگتی رہی، اسے کیسے نیند آ سکتی تھی؟ اس نے کسی نہ کسی طرح اپنی رسیاں کھول لیں اور اپنے آپ کو آزاد کر لیا۔ اس نے ادھر ادھر دیکھا کہ لوگ گہری نیند سو رہے تھے ۔ وہ اونٹوں کی طرف متوجہ ہوئی کہ ان میں سے کسی پر بیٹھ کر مدینہ طیبہ پہنچ جائے۔ جب وہ ایک اونٹ کے قریب ہوئی تو اس نے بلبلانا شروع کر دیا۔ عورت کو یہ بھی خوف تھا کہ کہیں لوگ جاگ نہ جائیں۔ وہ دوسرے اونٹ کے قریب ہوئی تو اس نے بھی آوازیں نکالنی شروع کر دیں۔ وہ تیسرے اور چوتھے اونٹ کے پاس گئی، چونکہ اونٹ اس کو پہچانتے نہ تھے، اس لیے اسے دیکھ کر بلبلانے لگے۔ جب وہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اونٹنی ’’العضباء‘‘ کے پاس گئی تو اونٹنی سدھائی ہوئی تھی، اس لیے وہ خاموش رہی۔ اس عورت نے اس کی رسی کھولی، پلک جھپکتے اس پر سوار ہو گئی، اسے ہنکارا، چلنے کا اشارہ کیا تو وہ چل پڑی۔ تھوڑی دیر بعد اونٹنی کی رفتار اتنی تیز ہو گئی کہ وہ ہوا سے باتیں کرنے لگی۔ اس کا رخ مدینہ طیبہ کی طرف تھا۔ جیسا کہ میں نے عرض کیا ہے یہ اونٹنی پورے مدینہ طیبہ میں معروف تھی کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ہے اور بہت تیز دوڑتی ہے۔ اونٹوں کی ایک خوبی ہے کہ وہ اپنے گھر کا راستہ نہیں بھولتے۔ اونٹنی نے مدینہ طیبہ کی طرف اپنے گھر کا رخ کیا، ادھر تھوڑی دیر بعد وہ لوگ بھی جاگ پڑے۔ دیکھا کہ عورت بھاگ گئی ہے اور اونٹنی بھی غائب ہے۔ وہ اپنے اونٹوں پر سوار ہوتے ہیں اور اونٹنی کا پیچھا کرتے ہیں۔ مگر ’’العضباء‘‘ بہت تیز رفتار تھی۔وہ ان کی پہنچ سے دور جا چکی تھی، لہٰذا مایوس ہو کر واپس آگئے۔
Flag Counter