Maktaba Wahhabi

184 - 342
انھوں نے اعلان کر دیا کہ ہمیں مال نہیں چاہیے، ہمیں قیدی عورتیں اور بچے دے دیں۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے اعلیٰ اخلاق کو ملاحظہ کیجیے کہ چاہتے تو غلاموں کو آزاد کر نے کا حکم جاری فرما دیتے ، مگرآپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے جاں نثار صحابہ کرام سے مشورہ کرکے انہیں اعتماد میں لینا چاہتے ہیں۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم دل سے چاہتے ہیں کہ ان قیدیوں کو رہائی مل جائے، اسی لیے ارشاد فرمایا:’’جب میں ظہر کی نماز پڑھ لوں تو تم لوگ اٹھ کر کہنا:ہم چاہتے ہیں کہ مسلمان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ہماری سفارش کریں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کی سفارش مان لیں اور ہمارے قیدیوں کو رہا کر دیں اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم بھی مسلمانوں کے ہاں ہماری سفارش کریں۔ مسلمان بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سفارش مان لیں اور ہمارے قیدیوں کے معاملے میں رعایتکریں اور انھیں آزاد کر دیں۔‘‘ چنانچہ جب اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ظہر کی نماز ادا کی تو بنو ہوازن نے وہی بات کہی جس کا انھیں کہا گیا تھا۔ کہنے لگے:لوگو! ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مسلمانوں کے پاس اور مسلمانوں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سفارشی بناتے ہیں۔ قارئین کرام! ذرا اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے اعلیٰ اخلاق کو تو دیکھیے کہ آپ چاہتے ہیں کہ قیدیوں کو رہائی مل جائے، چنانچہ خود ہی ان کو تدبیر بتا رہے ہیں۔ کائنات کے سب سے اعلیٰ اخلاق والے سید ولد آدم صلی اللہ علیہ وسلم اعلان کر رہے ہیں:’’جو میرے اور بنو عبدالمطلب کے حصے کے قیدی ہیں، وہ میں آپ لوگوں کو واپس کرتا ہوں۔‘‘ مہاجرین نے اپنے قائد کے الفاظ سنے تو وہ اعلان کر رہے ہیں کہ جو ہمارے حصے کے قیدی ہیں ہم انھیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کرتے ہیں۔ ادھر انصار بھی یہی اعلان کر رہے ہیں کہ ہمارے قیدی بھی آزاد ہیں۔ بعض بدو سرداروں نے کچھ پس و پیش اور تردد سے کام لیا مگر بالآخر وہ بھی رضامند ہو گئے اور بنو ہوازن کے تمام چھ ہزار قیدی رہا کر دیے گئے۔، ،صحیح البخاري، حدیث:4319-4318، والرحیق المختوم، ص:427،428، والسیرۃ النبویۃ للصلابي:570-568/2، والسیرۃ النبویۃ لمہدي رزق اللّٰہ:174/2۔
Flag Counter