Maktaba Wahhabi

183 - 342
نے آپ کی پرورش کی ہے۔ اور پھر اس نے عرب کے دو بڑے اورمشہور بادشاہوں حارث بن ابو شمر اور نعمان بن منذر کا نام لے کر کہا کہ اگر ہم نے ان کو دودھ پلایاہوتااور ان پر اس قسم کا احسان کیا ہوتا اور پھر ہم پر وہ مصیبت نازل ہوتی جو ہم پر نازل ہوئی ہے تو ہم ان سے مہربانی کی امید رکھتے۔ جہاں تک آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا تعلق ہے آپ تو اللہ کے رسول ہیں۔ ہمارے گھرانوں میں جن جن بچوں کی پرورش ہوئی ہے ان تمام سے آپ اعلیٰ، افضل اور بہتر ہیں۔ ابو صرد شاعر تھا۔ عربوں کے ہاں عادت تھی کہ وہ اپنی خطابت میں نثر کے بعد اشعار کا سہارا لیتے۔ جو بات نثر میں نہ کہہ سکتے چند اشعار میں اپنا مدعا بیان کر دیتے ۔ پھر اس نے اشعار پڑھنے شروع کر دیے۔ آئیے صرف ایک شعر پڑھ کر آگے بڑھتے ہیں: اُمْنُنْ عَلَیْنَا رَسُولَ اللّٰہِ فِي کَرَمٍ فَإِنَّکَ الْمَرْئُ نَرْجُوہُ وَنَنْتَظِرُ ’’اللہ کے رسول !سخاوت کرتے ہوئے ہم پر احسان فرمائیے آپ تو ایسے شخص ہیں جن سے ہم امیدیں لگائے منتظر بیٹھے ہیں۔‘‘ دیگر اشعار میں وہ کہتا ہے: ’’ان عورتوں پر آپ احسان فرمائیے جن کا آپ دودھ پیتے رہے۔‘‘ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم وفد کی گزارشات کو پورے اطمینان کے ساتھ سن رہے ہیں۔ وفد کا مطالبہ ہے کہ آپ مہربانی کر کے قیدی اور مال واپس کر دیں۔ ہوازن کے وفد نے اس طرح بات کی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا دل پسیج گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرما رہے ہیں:’’میرے ساتھ جو لوگ ہیں، تم انھیں دیکھ ہی رہے ہو۔ مجھے سچ بات زیادہ پسند ہے۔ بتاؤ کہ تمھیں اپنے بال بچے زیادہ محبوب ہیں یا مال زیادہ پسند ہے۔‘‘ مجلس میں کچھ لمحات کے لیے سناٹا چھا گیا۔ عربوں کے ہاں بال بچے نہایت محبوب اور عزت والے سمجھے جاتے تھے۔ ان کا قیدی اور غلام بنایا جانا… انھیں کسی صورت گوارا نہ تھا۔ وفد کے ارکان نے یک زبان ہو کر کہا:ہمارے نزدیک خاندانی شرف کے برابر کوئی چیز نہیں۔ گویا
Flag Counter