Maktaba Wahhabi

170 - 342
رسول ہی ہوں۔ پھر سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو حکم دیا کہ وہ محمد بن عبداللہ لکھیں اور رسول اللہ کے الفاظ مٹا دیں۔ لیکن سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے گوارا نہ کیا کہ وہ ان الفاظ کو مٹا دیں، جب انہوں نے تردد کا اظہا رکیا تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے خود اپنے ہاتھوں سے یہ الفاظ مٹا دیے۔ اس کے بعد دستاویز لکھی گئی۔ قارئین کرام! ایک منظر اور دیکھتے ہیں۔ حدیبیہ کے میدان میں جبکہ صلح کا معاہدہ لکھا جا رہا تھا، سہیل کے حقیقی بیٹے ابو جندل رضی اللہ عنہ اپنی بیڑیاں گھسیٹتے آ پہنچے۔وہ مکہ مکرمہ سے کسی نہ کسی طرح قریش کی قید سے نکل کر آئے تھے۔ انھوں نے مسلمانوں کے سامنے اپنے آپ کو پیش کر دیا۔ معاہدے کی ایک شق یہ بھی تھی کہ قریش کا جو آدمی اپنے سرپرست کی اجازت کے بغیر، یعنی بھاگ کر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جائے تو اسے واپس کر دیا جائے گا لیکن محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھیوں میں سے جو شخص پناہ کی غرض سے بھاگ کر قریش کے پاس جائے گا تو قریش اسے واپس نہیں کریں گے۔ ابو جندل رضی اللہ عنہ جب مسلمانوں کے درمیان آگئے تو انھوں نے دہائی دی کہ مسلمانو! مجھے بچاؤ۔ سہیل کہنے لگا:یہ پہلا شخص ہے جس کے ذریعے معاہدے کی جانچ ہو گی، طے شدہ شرط کے مطابق آپ کو اسے واپس کرنا ہوگا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ’’ابھی تو معاہدہ لکھا جا رہا ہے۔ابھی تو اس پر کسی کے دستخط بھی نہیں ہوئے‘‘۔ سہیل کہنے لگا:آپ اسے واپس نہ کریں گے تو میں آپ سے صلح ہی نہیں کروں گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:’’اسے میری خاطر ہی چھوڑ دو۔‘‘ سہیل بولا:میں آپ کی خاطر بھی نہیں چھوڑ سکتا۔ ارشاد فرمایا:’’نہیں، اتنا تو کر ہی دو۔‘‘ سہیل کہنے لگا:نہیں، میں نہیں کر سکتا۔ اور ابو جندل کے چہرے پر ایک زور دار چانٹا رسید کرتے ہوئے اسے مکہ مکرمہ واپس لے جانے کے لیے ان کے کرتے کا گلا پکڑ کر گھسیٹنے لگا۔ ابو جندل زور زور سے چیخ کر کہنے لگے:اے اہل اسلام! کیا میں مشرکین کی طرف واپس کیا جاؤں گا تاکہ وہ مجھے میرے دین کے متعلق فتنے میں ڈال دیں؟
Flag Counter