Maktaba Wahhabi

147 - 342
وہ برباد و ہلاک ہوجائے گا۔ اس کو یقین ہوگیا کہ محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) غالب ہوکر رہیں گے۔ سراقہ امان کا طلب گار ہوا ،جو اسے مل گئی ۔ سراقہ نے کہا:(اُکْتُبْ لِی کِتَابًا یَکُونُ بَیْنِی وَبَیْنَکَ آیَۃً) ’’میرے لیے پروانۂ امن لکھ دیجیے جو میرے اور آپ کے درمیان نشانی کے طور پر رہے گا ۔‘‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے غلام عامر بن فہیرہ کو حکم دیا کہ سراقہ کو امان نامہ لکھ دو۔ سراقہ نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو قریش کے عزائم اور سو اونٹوں کے انعام کے بارے میں آگاہ کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو زادِراہ اور سازوسامان کی پیش کش کی مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی بھی قسم کا سامان لینے سے انکار کردیا اور صرف یہ فرمایا:’’ہمارے بارے میں راز داری سے کام لینا۔‘‘ سراقہ نے یہ امان نامہ سنبھال کر رکھا ہوا تھا۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم غزوئہ حنین کے موقع پر جعرانہ میں قیام فرما تھے ۔ انصاری صحابہ کرام کی ایک جماعت اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا پہرہ دے رہی تھی تاکہ اجازت کے بغیر کوئی آگے نہ جاسکے۔بنو مدلج کا یہ بدو سردار تمام رکاوٹوں کو عبور کرتا ہوا آگے بڑھ رہاتھا۔صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اسے روکنے لگے۔ (إِلَیْکَ، إِلَیْکَ، مَاذَا تُرِیدُ) ’’ارے ، ارے کہاں جاتے ہو، کیا چاہتے ہو؟‘‘ سراقہ کی یہ شان ہے کہ اس نے
Flag Counter