Maktaba Wahhabi

130 - 342
اللہ کے رسول! میرے لیے دعا فرمائیں کہ اللہ تعالیٰ مجھے اس جنگ میں شہادت کی نعمت نصیب فرمائے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لیے دعا فرمائی: ( اَللّٰہُمَّ إِنِّی أُحَرِّمُ دَمَہُ عَلَی الْکُفَّارِ) ’’اے اللہ! میں اس کا خون کفار پر حرام کرتا ہوں۔‘‘ انھوں نے عرض کی کہ اے اللہ کے رسول! میرا یہ تو ارادہ نہ تھا۔ میں تو شہادت کا متمنی ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:’’ذوالبجادین! تم اللہ کی راہ میں جہاد کے لیے نکلے ہو۔ اگرتمھیں بخار ہوجائے اور تم بخار سے وفات پا جاتے ہو توپھر بھی شہید ہو۔‘‘ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم تبوک پہنچے ۔ ہمارے قارئین کرام کو یہ بات خوب معلوم ہوگی کہ اس غزوہ میں رومیوں کے خلاف کوئی معرکہ نہیں ہوا۔ تبوک میں قیام کے دوران ہی عبداللہ ذوالبجادین کو ایک دن بخار ہوگیا۔ طبیعت زیادہ خراب ہوگئی اور اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے گھر باراور آسائشوں بھری زندگی چھوڑنے والا عبد اللہ اللہ کو پیارا ہوگیا۔ رؤوف ورحیم نبی کو خبر دی گئی۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم شیخین سیدنا ابوبکر صدیق اور سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہما کو ہمراہ لے کر ان کے کفن دفن کا بندوبست کرنے لگے۔ وہ ایک سرد رات تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک جسمانی طور پر نحیف و نزار لیکن ایمانی طور پر مضبوط صحابی عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ آدھی رات کو اٹھے۔ چھوٹے قد کے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے شدید محبت کرتے تھے۔ قدیم الاسلام تھے، انھوں نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بستر کو دیکھا تو خالی نظر آیا، پھر شیخین کے بستر پر نظر ڈالی تو وہ بھی خالی تھے۔ بڑا تعجب ہوا۔ دل میں خیال آیا کہ کہیں کوئی خطرہ نہ درپیش ہو۔ کھڑے ہوکر چاروں طرف نظر دوڑائی۔ آدھی رات کا وقت ، گھپ اندھیرا، پھر انہیں ایک طرف ہلکی سی روشنی نظر آئی۔ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ اس روشنی کی طرف چل پڑے۔مسلمانوں کے کیمپ کے ایک کنارے
Flag Counter