Maktaba Wahhabi

116 - 342
زید بن سعنہ کہتا ہے:میں ایک دن اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھا تھا کہ ایک شخص اپنی سواری پر آیا اور اس نے اپنی قوم کے بارے میں بتایا:اللہ کے رسول! میرا تعلق فلاں قبیلے اور بستی سے ہے۔ ان لوگوں نے اسلام قبول کرلیا ہے ۔میں نے ان سے وعدہ کیا تھا کہ اگر تم لوگ اسلام قبول کرلوگے تو تمھارے پاس صبح وشام بڑی وافر مقدار میں رزق آئے گا۔ انھوں نے اسلام قبول کرلیا۔ اب صورت حال یہ ہے کہ ان دنوں قحط سالی ہے۔ مجھے ڈر ہے کہ کہیں یہ لوگ بھوک اور بدحالی سے باعث مرتد نہ ہوجائیں، آپ اگر مناسب خیال فرمائیں تو ان کے لیے کچھ مال ومتاع بھجوا دیں تا کہ ان کی بھوک کا مداوا ہوجائے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کی طرف دیکھا گویا آپ ان سے پوچھنا چاہتے تھے کہ کیا ہمارے پاس ان دنوں بیت المال میں کچھ مال موجود ہے جو ان کو بھیجا جاسکے؟ قارئین کرام! مگر یوں محسوس ہوتا ہے کہ ان ایام میں بیت المال خالی تھا۔ شاید اس لیے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی خاموشی سے بات واضح ہو گئی۔ زید بن سعنہ نے موقع غنیمت جانا اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کی:میرے پاس اس مسئلے کا حل موجود ہے۔ آپ مجھے فلاں باغ کی کھجوریں ایک مقررہ مدت کے بعد ادا کردیں ، مگر ان کی قیمت ابھی مجھ سے لے لیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:(نَعَمْ! لٰکِنْ لَا تُسَمِّ حَائِطَ بَنِي فُلَانٍ) ’’تمھارا کہنا درست ہے میں تمہیں متعین مدت کے بعد کھجور کی متعین مقدار ادا کردوں گا،مگر کسی مخصوص باغ کا نام نہ لو۔ ہم آپ کو جہاں سے ممکن ہوا کھجوریں دے دیں گے ۔‘‘زید بن سعنہ کہنے لگا:(قَبِلْتُ) ’’مجھے منظور ہے۔‘‘ زید کہتا ہے:(فَأَعْطَیْتُ رَسُولَ اللّٰهِ صلي اللّٰه عليه وسلم ثَمَانِینَ مِثْقَالًا مِنَ الذَّھَبٍ) ’’ میں نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کوسونے کے اسّی(80) دینار دیے۔ آپ نے یہ سارا مال اس اعرابی کے حوالے کرتے ہوئے
Flag Counter