Maktaba Wahhabi

106 - 342
کی اونٹنی پر سوار تھی۔مجھے اونگھ آتی تو میرا سر کجاوے سے لگ جاتا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے ہاتھ سے جگاتے ہوئے فرماتے:(یَا ھَذِہِ مَھْلًا، یَا صَفِیَّۃَ بِنْتَ حُیَيٍّ) ’’اری ذرا سنبھل کر، اے حیی کی بیٹی صفیہ !ذرا دھیان سے۔‘‘ ایک مرتبہ سیدہ عائشہ اور سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہما نے یہ بات کہہ دی کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاں صفیہ رضی اللہ عنہا سے زیادہ قدرومنزلت والی ہیں کہ ہم اللہ کے رسول کی زوجات بھی ہیں اور آپ کی چچازاد بھی ہیں۔ سیدہ صفیہ رضی اللہ عنہا نے یہ بات اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عرض کر دی تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اس طرح ان کی تالیف قلبی فرمائی کہ صفیہ تم نے ان سے اس طرح کیوں نہ کہا: (وَکَیْفَ تَکُوْنَانِ خَیرًا مِّنِّي وَ زَوْجِيْ مُحَمَّدٌ وَ أَبي ھَارُوْنُ وَ عَمِّي مُوسٰی) ’’تم مجھ سے کیسے بہتر ہو سکتی ہو جبکہ میرے شوہر محمد صلی اللہ علیہ وسلم میرے باپ ہارون علیہ السلام اور میرے چچا موسیٰ علیہ السلام ہیں‘‘ جامع الترمذي حديث:3892 و المستدرك للحاكم:4/29 قارئین کرام! یہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا اعلیٰ اخلاق تھا کہ آپ نے اپنی بیوی کو ان الفاظ کے ساتھ تسلی دی۔ ان کو بتایا کہ ان کی اہمیت بھی کوئی کم نہیں ہے۔ سیدہ صفیہ رضی اللہ عنہا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق سے بے حد متأثر ہوئیں۔ اسی چیز کا نتیجہ تھا کہ وہ آپ کے ساتھ بے حد محبت کرتی تھیں۔ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی جان سے بھی زیادہ عزیز اور محبوب تر سمجھتی تھیں۔ اگر کبھی آپ بیمار پڑتے تو وہ آرزو کرتیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم صحت و عافیت میں رہیں اور اس کے بدلے میں یہ مرض انہیں لاحق ہو جائے۔
Flag Counter