Maktaba Wahhabi

262 - 264
فلاح پانے والے ہیں ۔‘‘ اس آیت میں مسلمانوں سے خطاب ہے اور مسلمانوں ہی کی ایک جماعت کو مسلمانوں میں ہی خیر کی دعوت، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا کام کرنے کا حکم دیا گیا ہے جو اس بات کی دلیل ہے کہ اسلامی نظام کے نفاذ کے باوجود افراد کی اصلاح کے لیے دعوت و تبلیغ اور امر بالمعروف ونہی عن المنکر کی ضرورت باقی رہتی ہے۔یہ بھی واضح رہے کہ سورہ آل عمران بالاتفاق مدنی سورت ہے۔ امر بالمعروف ونہی عن المنکر نفاذ شریعت کے منہج’دعوت وجہاد‘ میں دعوت اور جہاد کے مابین کی ایک اصطلاح ہے۔ اس اصطلاح میں امر بالمعروف کا زیادہ تعلق’ دعوت‘ اور نہی عن المنکر کا تعلق ’جہاد‘ سے جڑتا ہے۔ اس اصطلاح کی وضاحت میں مولانا جلال الدین عمری حفظہ اللہ کی کتاب ’معروف ومنکر‘ ایک نہایت اہم کتاب ہے ۔ علاوہ ازیں امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے بھی اپنے ایک رسالے ’امر بالمعروف ونہی عن المنکر‘ میں اس اصطلاح سے متعلقہ گہری ابحاث پر تفصیلی روشنی ڈالی ہے۔ احتجاجی سیاست کے اس طریق کار کی کامیابی کا انحصار اس پر ہے کہ جمیع مسالک اور مکاتب فکر کے علماء اور اسلامی و جہادی تحریکیں ۲۲ نکات اور قرارداد مقاصد کی روشنی میں ایک بہت بڑی عوامی احتجاجی تحریک کی بنیاد رکھیں جس کا منشور نظام عدل کا قیام اور ظلم کا خاتمہ ہو۔ یہ تحریک اسی وقت کامیاب ہو سکتی ہے جبکہ اس میں اخلاص عمل ،رضائے الٰہی اور اخروی نجات جیسے مقاصد پیش نظر ہوں اور اگر تومتفرق مسالک ، مذہبی جماعتوں اور اسلامی تحریکوں کا اس احتجاجی تحریک میں شمولیت کا مقصد وزارتوں اور عہدوں کی بندربانٹ میں اپنا حصہ لینا اور اقتدار کی بہتی گنگا میں اپنے ہاتھ دھونا ہو گاتو پھر ایم ایم اے(متحدہ مجلس عمل) کا سرحد میں لایا ہوا اسلام سب کے سامنے رہنا چاہیے۔ علاوہ ازیں راقم دل کی گہرائی سے یہ احساس رکھتا ہے کہ پاکستان میں احتجاجی سیاست کے ذریعے انقلاب لانے کے لیے ایک ایسے نئے اور نوجوان خون کی ضرورت ہے کہ جس میں ابھی تک جماعتی تعصب،مسلکی فرقہ واریت اور مذہبی انتہا پسندی کے جراثیم اور وائرس داخل نہ ہوئے ہیں ۔ واللّٰہ اعلم بالصواب! ٭٭٭
Flag Counter