Maktaba Wahhabi

260 - 264
بغاوت کا معاملہ ہے جیسا کہ کرنل یا بریگیڈیئر لیول پر تو اس سے سوائے ناکامی اور مزید بگاڑ کے کچھ ہاتھ آنے والا نہیں ہے جیسا کہ ’خلافت آپریشن‘ کا نتیجہ سامنے ہے۔ پس عوامی عسکری جماعتوں اور تحریک طالبان پاکستان کا رخ اس وقت جہاد افغانستان‘ جہاد عراق اور جہاد فلسطین وغیرہ کی طرف موڑنے کی اشد ضرورت ہے تا کہ مسلمانوں کے اصل دشمن اور شر کے منبع امریکہ اور اسرائیل کو کمزور کیا جائے۔ ہمارے خیال میں یہ وہ ایک میدان ہے جہاں پاکستان کی عسکری و جہادی تنظیموں کو فِٹ ہو جانا چاہیے اور افغانستان میں امریکہ اور نیٹو فورسز کے خلاف لڑنے والے طالبان کی جانی و مالی حمایت و نصرت ہر مسلمان کا بنیادی فریضہ ہے اور بلاشبہ افغانستان کا جہاد’جہاد‘ ہے اور اس پر علمائے امت کا تقریباًاتفاق ہے۔امریکہ اور نیٹوفورسز میں ظلم وکفر دونوں انتہائی درجے میں پائے جاتے ہیں اور اسلام ظلم کی حکومت کو برداشت نہیں کرتا ہے۔ ظالم امریکی اور نیٹو فورسز کے ساتھ اعلائے کلمۃ اللہ کے مقصد کے تحت لڑائی کے جہاد فی سبیل اللہ ہونے میں علماء کے اس اتفاق کے بعد کچھ شاذ آراء کی طرف توجہ دینے کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی کیونکہ اعتراض اور اختلاف کا پہلو توہر جگہ نکل ہی آتاہے اور اعتراضات اور اختلافات تو خدا کے وجود پر بھی موجود ہیں ۔ ہاں ‘ مسلمان حکمرانوں کی تکفیر اور ان سے لڑائی میں اہل علم کے ہاں شدید اختلاف پایا جاتاہے اور اس مسئلے میں اہل علم کی اکثریت ان دونوں کی قائل نہیں ہے۔افغانستان کا جہاد ہمارے نزدیک جہاد فی سبیل اللہ جبکہ کشمیر‘ عراق اور فلسطین کا جہاد‘ جہاد آزادی ہے کیونکہ ان تینوں مقامات پر جہاد کا اصل مقصود کسی اسلامی نظام کا قیام نہیں بلکہ مسلمانوں کی اجتماعیت کو کفار کے اقتدار سے نجات دلانا ہے۔ پس اعلیٰ تر قتال کی صورت جہاد افغانستان کی ہے اور اس کے بعد فلسطین‘عراق اور کشمیر کا جہاد ہے ۔ جہاں تک پاکستانی حکومت کے خلاف خروج یا پاکستانی سکیورٹی فورسز سے قتال کا معاملہ ہے تو اس بارے جمیع مکاتب فکر کے جمہور اہل علم کا کہنا یہ ہے کہ یہ درست نہیں ہے اور اس بارے کئی ایک اجتماعی فتاویٰ بھی جاری ہو چکے ہیں ۔
Flag Counter