Maktaba Wahhabi

78 - 418
کنایہ، تعریض، استعمال میں اشتراک و تسامح ،مبالغہ آمیز تراکیب، امثال ، تلمیح و تملیح، اثبات و انکار میں استفہام کا استعمال اور اس قسم کے دیگر فنون کی کثرت ہے۔ قرآن ایسے نادر اسلوب میں نازل ہوا جس نے فصحائے عرب کو ہکا بکا کردیا۔ قرآن نے منکرین کے بڑے سے بڑے قادر الکلام لوگوں کو چیلنج دیا کہ وہ اس کے مقابلے کی کوئی چیز بنا کردکھائیں، لیکن وہ قرآن کی فصاحت و بلاغت کے آگے عاجزو درماندہ رہ گئے، خواہ وہ قرآن پر ایمان لے آنے والے تھے، جیسے لبیدبن ربیعہ ، کعب بن زہیر اور نابغہ جعدی رضی اللہ عنہم یابغض اور عناد کے طورپر اپنے کفر پر مصر رہنے والے، جیسے ولید بن مغیرہ وغیرہ۔ چنانچہ قرآن مجید اپنے اعجاز کے اعتبار سے کثیر المعانی ہے۔ معانی کی یہ کثرت بڑے بڑے فصحاء و بلغا ء کے کلام میں نہیں ملتی۔ یہ بات واضح ہے کہ قرآن کریم شریعت و قانون اور تعلیم و تادیب کی کتاب ہے، اس کے باوجود اس کے کم سے کم الفاظ میں معانی و مقاصد کی جو وسعت و کثرت ہے، وہ حیطۂ بیان سے باہر ہے۔[1] اور جب عربی زبان کو علم لسانیات کی سطح پر جانچا جائے تو واضح ہوتا ہے کہ کوئی بھی زبان الفاظ و قواعد کے اعتبار سے بلیغ زبان کی شرطوں کو اس سے زیادہ پوری کرنے والی نہیں ہے۔ ہم پر لازم ہے کہ ہم اسے اس پیمانے سے بھی دیکھیں جس میں کوئی اختلاف نہیں اور وہ پیمانہ ہے انسانی نطق و گویائی میں اظہار ضروریات کا ،یعنی وہ زبان اظہار مدعا میں کہاں تک کامیاب ہے؟ اس لحاظ سے ہم دیکھتے ہیں کہ عربی زبان انسانی ضرورتوں کے بیان و اظہار میں نہایت احسن طریقے سے مکمل طور پر اپنا کردار ادا کرتی ہے اور کسی ایک چیز کو بھی مہمل نہیں چھوڑتی جیسا کہ اکثر دوسری زبانوں کی ابجدیات میں دیکھا اور محسوس کیا جاتا ہے۔ عربی کی امتیازی خوبی یہ بھی ہے کہ اگر اس زبان میں کسی حرف کے دو مخارج ہیں تو ان دونوں مخارج میں یا
Flag Counter