Maktaba Wahhabi

348 - 418
ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کا دل تلاوت کرنے والے کی نسبت زیادہ فارغ اور بات سمجھنے کے لیے زیادہ مستعد ہوتا ہے کیونکہ تلاوت کرنے والا تو قراء ت اور قرا ء ت کے احکام کی پابندی میں مشغول ہوتا ہے۔‘‘[1] اس حدیث کی شرح کرتے ہوئے امام نووی رحمہ اللہ نے جو فوائد لکھے ہیں، ان میں سے ایک یہ بھی ہے: ’’اس حدیث سے تلاوت قرآن کو غور سے سننے، اس کے لیے کان لگا کر متوجہ ہونے، تلاوت سن کر رونے اور اس میں غور و فکر کرنے کا استحباب (مستحب ہونا) ثابت ہوتا ہے، مزید برآں اسے غور سے کان لگا کر سننے کے لیے کسی اور شخص سے قرآن کریم کی قراء ت کے مطالبے کا مستحب ہونا بھی ثابت ہے اور یہ امر قرآن کریم کی بذات خود تلاوت کرنے کی نسبت قرآن کو اچھی طرح سمجھنے اور اس پر تدبر کرنے کے لیے زیادہ بلیغ اور موثر ہے۔ اس میں اہل علم اور اصحاب فضل کے لیے تواضع اور انکسار بھی ہے، چاہے وہ اپنے پیروکاروں ہی سے اس کا مطالبہ کریں۔‘‘[2] یہ تو تمام انبیائے کرام کی سنت مبارکہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کا کلام سن کر ان کی آنکھوں سے آنسو چھلک پڑتے تھے، ان کے دل ڈر جاتے اور قادر مطلق کے کلام سے متاثر ہو جاتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: ’’(یہ وہ انبیاء) ہیں جن پر اللہ نے انعام کیا جو اولاد آدم میں سے ہیں اور ان لوگوں
Flag Counter