Maktaba Wahhabi

307 - 418
ایک اور موقع پر انھوں نے ہم سے اور بالخصوص ان لوگوں سے جو مادی علوم میں ترقی یافتہ اقوام سے نفسیاتی طور پر مرعوب ہو کر شکست خوردگی کی زندگی بسر کر رہے ہیں، نہایت اہم اور فکر انگیز بات کہی۔ وہ فرماتے ہیں: ’’مسلمان کو چاہیے کہ قرآن پر فخر کرے اور اس سے قوت حاصل کرے کیونکہ قرآنِ کریم پانی کے مانند ہے جس میں ہر اس شخص کے لیے زندگی کی بشارت ہے جو اسے سیر ہو کر پیتا ہے۔‘‘[1] اسی طرح وہ فرماتے ہیں: ’’قرآن کریم ہر اعتبار سے مختلف جدید علوم مثلاً:طب، فلکیات، جغرافیہ، جیالوجی (ارضیات) قانون، عمرانیات اور تاریخ وغیرہ پر سبقت لے گیا ہے۔ پس ہمارے دور میں جدید علوم کو یہ دیکھنا چاہیے کہ قرآن عظیم کس کس چیز کا پہلے ہی تذکرہ فرما چکا ہے۔‘‘[2] ٭ ڈاکٹر گرینیا: جن لوگوں نے قرآن عظیم سے متاثر ہو کر اسلام قبول کیا ان میں سے ایک ڈاکٹر گرینیا بھی ہیں۔ جب ان سے اسلام قبول کرنے کا سبب پوچھا گیا تو انھوں نے فرمایا: ’’بلاشبہ میں نے قرآن کی وہ تمام آیات تلاش کیں جن کا تعلق طبی اور سائنسی علوم سے تھا اور انھیں میں نے چھوٹی عمر ہی میں پڑھ لیا تھا اور میں انھیں بخوبی جانتا تھا۔ پس میں نے اس سے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ یہ آیات جدید علوم و معارف سے پوری طرح مطابقت رکھتی ہیں، چنانچہ میں نے اسلام قبول کر لیا کیونکہ مجھے پورا یقین ہو گیا تھا کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ایک ہزار سال پہلے، جب کہ اس دور میں وہاں بنی نوع انسان میں سے کوئی معلم اور مدرس ہی موجود نہیں تھا، واضح حق لے کر آئے۔ اگر جدید علوم و فنون
Flag Counter