Maktaba Wahhabi

96 - 342
کے عوض بھاری فدیہ دے سکتی ہے۔‘‘ سیدنا مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ نے( اَلْحُبُّ فِي اللّٰہِ وَالْبُغْضُ فِي اللّٰہِ) کا فریضہ سر انجام دیا۔ ابو عزیز کے ہاتھ بندھے ہوئے تھے۔ سیدنا مصعب رضی اللہ عنہ کو مخاطب ہوکر کہنے لگا:بھائی! تم میرے بارے میں یہ وصیت کررہے ہو کہ اسے اچھی طرح قابو کرلینا۔‘‘ اس کا خیال تھا کہ میرا بھائی میری سفارش کرے گا، مگر سیدنا مصعب رضی اللہ عنہ نے جو جواب دیا وہ سنہر ی الفاظ سے لکھنے کے قابل ہے:( إِنَّہ أَخِي دُوْنَکَ) ’’تم میرے بھائی نہیں بلکہ در اصل میرا بھائی تو یہ انصاری صحابی ہے۔ ‘‘ دل چسپ با ت یہ ہے کہ چند ہی روز بعد ابو عزیز کی والدہ نے مکہ مکرمہ والوں سے پوچھا کہ قریشیوں کی طرف سے سب سے زیادہ فدیہ کتنا ادا کیا گیا ہے تو بتایا گیا کہ اب تک ادا کیے جانے والے فدیہ میں چار ہزار درہم سب سے بڑا فدیہ ہے، چنانچہ اس نے چار ہزار درہم مدینہ طیبہ بھجوا کر اپنے بیٹے کو رہا کروالیا۔ جس انصاری صحابی نے اسے گرفتار کیا تھا وہ تنگدست ہونے کے باوجود اپنے قیدی کو روٹی کھلاتے۔ اس زمانے میں مدینہ طیبہ میں روٹی خاصی مہنگی اور گراں قدر چیز تھی مگر کھجوریں عام تھیں۔ ابوعزیز کا بیان ہے کہ جب وہ کھانا لاتے تو روٹی میرے سامنے رکھ دیتے اور خود کھجوریں کھاکر گزارہ لیتے تھے۔ مجھے یہ دیکھ کر بڑی ندامت ہوتی، میں روٹی ان کے ہاتھ میں دے دیتا مگر وہ روٹی مجھی کو واپس کردیتے۔ قارئین کرام! یہ میرے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا اعلی اخلاق ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام کو قیدیوں سے حسن سلوک کا حکم دیا ۔صحابہ کرام نے اس حکم پر اتنے شاندار طریقے سے عمل کیا کہ خودتو کھجوریں کھاکر گزارا کر لیتے مگر قیدی کو اچھی اور اعلیٰ خوراک دیتے۔ (معرفۃ الصحابۃ، محقق:365/20، و تہذیب سیرۃ ابن ہشام:203/1)
Flag Counter