Maktaba Wahhabi

40 - 342
(مَنْ تَرَوْنَ نَکْسُوہَا ہٰذِہِ الْخَمِیصَۃَ) ’’تم کسے اس بات کازیادہ حق دار سمجھتے ہوکہ اسے یہ شال پہنائی جائے؟‘‘ صحابہ کرام احتراماًخاموش ہیں لیکن ذہنوں میں خیال ضرورپیدا ہواکہ وہ کون خوش قسمت ہوگا جسے یہ خوبصورت ‘جاذبِ نظر اور منقش کپڑا ملے گا۔ صحابہ کرام آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرئہ اقدس کی طرف دیکھ رہے تھے کہ آپ کیا حکم صادر فرماتے ہیں اور یہ اعزاز کسے ملتا ہے؟خیال رہے کہ اہل اسلام کو اس طرح کا قیمتی کپڑا کبھی کبھار ہی میسر ہوتا تھا۔ ارشاد فرمایا:(إِیتُونِي بِأُمِّ خَالِدٍ)’’ام خالد کو میرے پاس بلا کر لاؤ۔‘‘ ایک صحابی دوڑتے ہوئے گئے اور ان کے والد کو بتایا کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ان کی بچی کو طلب فرما رہے ہیں۔ خالد بن سعید رضی اللہ عنہ اپنی بیٹی کو اپنے ہاتھوں میں اٹھائے ہوئے جلدی سے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پہنچے اور ام خالد کو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کیا۔ قارئین کرام:اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے اعلیٰ اخلاق کو ملاحظہ فرمائیں۔ آپ چاہتے تو یہ کپڑا ان کے گھر بھی بھجوا سکتے تھے مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے مبارک ہاتھوں سے ام خالد کو یہ خوبصورت کپڑا پہنانے کو ترجیح دے رہے ہیں اور اس بچی کی خوشی میں بنفس نفیس شرکت فرما رہے ہیں، صحابہ کرام یہ منظر بڑے شوق سے دیکھ رہے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم انھیں پہنا بھی رہے ہیں اور اپنی زبان حق ترجمان سے یہ فرما بھی رہے ہیں: (ہٰذَا سَنَا یَا أُمَّ خَالِدٍ! ہٰذَا سَنَا) ’’ام خالد !یہ کپڑا تمھیں بہت جچ رہا ہے، یہ بہت خوبصورت ہے۔‘‘ (سَنَا)حبشی زبان میں خوبصورت چیز کو کہتے ہیں۔ چھوٹی سی بچی یہ تحفہ ملنے پر بڑی شاداں وفرحاں
Flag Counter